اسلام فرد اور معاشرے کی حفاظت کا ضامن ہے اور امن کو وہ بنیادی حیثیت دیتا ہے جو کہ انسانوں سے ساتھ تعامل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ جہاں تک اسلام کے تصورِ جنگ کا تعلق ہے، تو اس کے لئے مخصوص حالات کا پیدا ہونا اور مضبوط وجوہات کا پایا جانا لازمی ہے۔ تاہم، جب اس طرح کے حالات پائے جائیں اور مسلمان لڑنے پر مجبور ہوں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی جنگی اخلاقیات کی بھر پور رعایت کریں اور ان کی سختی سے پابندی کریں۔ کسی بھی قسم کی جارحیت، ناانصافی یا بے گناہوں کے قتل سے باز رہیں، یہاں تک کہ فصلوں اور جانوروں کو بھی نہ چھیڑیں، کیونکہ ان سب کو امان حاصل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن سے مڈ بھیڑ کی خواہش سے منع فرمایا۔ کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ اس کا انجام کس طرف لے جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان جنگ کی شروعات نہیں کرتے، لیکن اگر جنگ کے اسباب وعلل ظاہر ہوجائیں جو جنگ اور لڑائی کو ناگزیر بناتے ہیں تو مسلمانوں پر جنگ واجب ہو جاتی ہے اور ان پر جنگی ساز و سامان کی تیاری لازم ہوجاتی ہے تاکہ وہ دشمن سے مقابلے کی بھر پور تیاری کریں اور انہیں بدترین شکست سے دو چار کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔
اسلام میں جنگ کے اسباب
اگراسلام میں اس کے جنگی قوانین کے علاوہ انصاف کی کوئی اور دلیل نہ ہوتی، تو بھی سلیم الفطرت لوگوں کو اسلام کی طرف لانے کیلئے یہی (جنگی قوانین) کافی تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ عام طور پر مادی مفادات پر دشمنی اور پھر ان کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی خواہش سے جنم لیتی ہے۔ دشمنی شیطان کا کام ہے، وہ اسے بنی آدم کے درمیان پیدا کرتا ہے تاکہ وہ ایسے وحشی جانوروں کی طرح ہوجائیں جن کے پاس نہ کوئی عقل، نہ رحم اور نہ انصاف ہوتا ہے۔ اسی لئے اسلام اپنی اعلیٰ تعلیمات کے ساتھ آیا جس نے فطرت کو حیوانیت سے پاک کرکے اس کا تزکیہ کیا، اس نے جنگ کے اسباب اور آداب کی قطعی وضاحت کی، زیادتی اور جارحیت کی ممانعت کی اور اسے ایسے قوانین کے ساتھ مقید کردیا جو اپنی اصل میں مجسم انصاف ہیں۔ گویا یہ ایک جراحی (آپریشن) کی مانند ہے جو زندگی بھر کے لیے سکون اور اطمینان دینے کے لیے، کچھ لمحات کے لئے درد اور تکلیف دیتا ہے۔
جنگ کی وجوہات میں سے چند یہ ہیں:
دفاع نفس/ اپنی جان کی حفاظت: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے "ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘ [الحج: 39، 40]، اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت ہے، دشمنوں کے ان سے لڑنے کے بعد، کیونکہ یہ اپنے نفس، زمین اور مذہب کے دفاع کے لیے ہے۔ یہاں لڑائی واضح ہے اس آیت سے معلوم ہوا کہ دشمن کی طرف سے لڑائی مسلط کرنے پر مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ یہ اپنی جان، زمین اور دین کے دفاع کیلئے ہے، یہاں عملاََ جنگ اور لڑائی کا مفہوم واضح ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس سبب کی تصدیق دوسری آیت میں فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: ’’اور تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ [البقرۃ: 190]۔ اس آیت میں جنگ کا حکم اس کی علامت کے طور پر آیا ہے جب دشمن پہلے مسلمانوں سے لڑتا ہے۔ اور وہ پاک ہے، خدائے بزرگ و برتر نے یہ کہہ کر آیت کا اختتام کیا: ’’اور زیادتی نہ کرو، کیونکہ خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ [البقرہ: 190]، یعنی ان سے لڑو جو تم سے لڑنا شروع کردیں، اور عورتوں، بچوں، راہبوں اور کسی ایسے شخص کو قتل کرنے میں زیادتی نہ کرو جو تمہارے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔
مظلوموں کا دفاع : یہ جنگ کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ مظلوم وہ ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس کلام میں فرمایا: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔‘‘ [النساء:75]۔ لڑائی کی ایک وجہ مظلوموں کو بچانا اور اس عذاب، ظلم و جبر اور مصیبت کو دور کرنا ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مصر کی فتح کے دوران اسلامی اور رومی فوجوں کے درمیان تصادم ہوا۔ مصر کے لوگ عیسائی تھے اور رومی اگرچہ ان کے ہی مذہب سے تھے لیکن وہ آپس میں مختلف مسالک کے پیرو تھے۔ لہٰذا رومی اپنے سے مختلف نظریہ رکھنے والے مصریوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے تھے اور یہ ظلم و ستم عربوں کو ان تاجروں کے ذریعے معلوم ہوتے تھے جن کا مصر آنا جانا لگا رہتا تھا، چنانچہ مصری لوگ مسلمان فاتحین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے، تاکہ وہ انہیں ظلم و ستم سے نجات ملے۔
عہد شکنی اور دشمنوں کے ساتھ تعاون: یہ ایک بہت ہی اہم وجہ ہے جس کی اہمیت مذکورہ بالا وجوہات کی طرح ہے۔ خدائے تعالیٰ نے بعض ایسے لوگوں کے بارے میں آیات نازل کی ہیں جنہوں نے عہد شکنی کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کردیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا اعتبار نہیں شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے‘‘ [التوبہ: 12]۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں پہنچنے کے فوراََ بعد مختلف طبقات کے ساتھ معاہدے کئے، مثلاً (بنوقینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ)۔ جہاں تک بنو قينقاع کا تعلق ہے انہوں نے معاہدہ کرنے کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی اور وہ مسائل کو ہوا دینے سے باز نہیں آئے، بلکہ وہ منافقین کے لیے راہ ہموار کرتے رہے اور مشرکوں کی حمایت برقرار رکھے ہوئے تھے۔ جہاں تک بنو نضیر کا تعلق ہے تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کے ساتھ تعاون کیا، یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی بھی سازش کی، بنو قریظہ نے اپنے مذکورہ بالا دو بھائیوں کی طرح، جنگ احزاب، جب قریش اور ان کے اتحادیوں نے مدینہ کا محاصرہ کیا، تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کی اور مشرکین کے ساتھ اتحاد کرلیا۔
اسلام میں جنگی اخلاقیات:
کوئی بھی قوم امن کے زمانے میں حسن سلوک، نرمی، کمزوروں کے ساتھ رحم دلی اور اپنے پڑوسی اور رشتہ داروں کے ساتھ رواداری کرتی ہے، لیکن جنگ کے زمانے میں ضرور بربریت پر اتر آتی ہے۔ لیکن (اس کے برعکس) جنگ کے زمانے میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ حسن سلوک اور رحم دلی اور مغلوبوں کے ساتھ رواداری صرف امت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ امت مسلمہ کو اس حیثیت سے دنیا کے تمام دیگر اقوام پر برتری حاصل ہے، کہ تاریک ترین ادوار میں جہاں ہر طرف انتقام کی صدائے بازگشت تھی، اسلام نے دنیا کو جنگی قوانین اور جنگی اخلاقیات کا درس دیا۔
غیر مقاتلین کو قتل کرنے کی ممانعت: اسلام نے غیر مقاتلین کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ [البقرۃ: 190]۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: "سلف میں سے بعض بزرگوں نے تصریح کی ہے کہ (الذين يقاتلونكم) سے مراد عورتوں، بچوں، راہبوں وغیرہ کے علاوہ کوئی اور ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم لوگ اللہ کے نام سے، اللہ کی تائید اور توفیق کے ساتھ، اللہ کے رسول کے دین پر جاؤ، اور (شیخ فانی) بوڑھوں کو جو مرنے والے ہوں نہ مارنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹے لڑکوں کو، اور نہ ہی عورتوں کو، اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور غنیمت کے مال کو اکٹھا کر لینا، صلح کرنا اور نیکی کرنا، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد)۔
لاشوں کو مسخ یا مثلہ کرنے کی ممانعت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاشوں کو مسخ کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ” اللہ کے نام سے اور اس کے راستے میں لڑو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو۔” (ابوداؤد، ترمذی)۔
قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘ [الانسان: 8]، علامہ بیضاوی فرماتے ہیں: مسکین، یتیم، اور اسیر یعنی مسلمانوں کی قید میں کافروں کے اسیر، کیونکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قیدیوں کو لاکر صحابہ کے درمیان تقسیم کرتے اور انہیں حکم دیتے: "اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا”۔
عبادت گزاروں اور خانقاہ نشین زاہدوں کو قتل کرنے کی ممانعت: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوجیں روانہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے: ”معابد کے بے ضرر خادموں اور خانقاہ نشین زاہدوں کو قتل نہ کرنا ۔”
خیانت اور دھوکہ دہی کی ممانعت: ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول لشکر روانہ فرماتے تو اسے تلقین کرتے کہ:۔ اللہ کے نام سے نکلو اور اس کے راستے میں لڑو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں، زیادتی نہ کرو، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو اور خانقاہ نشین زاہدوں کو قتل نہ کرو۔ (احمد)
فساد فی الارض کی ممانعت: مسلمانوں کی جنگیں، معاصر جنگوں کی طرح تخریب کاری پر مبنی جنگیں نہ تھیں جن میں غیر مسلم اپنے حریف کو فنا کے گھاٹ اتارنے اور اسے ہر اعتبار سے تباہ کرنے پر تلا ہو- جیسا کہ آج کل فلسطین کے اندر ہو رہا ہے- بلکہ مسلمان جہاں اور جس علاقے سے گزرتے تھے تو اس علاقے کے سماجی ڈھانچے کو تحفظ فراہم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ خواہ وہ ان کے دشمن کا ہی علاقہ کیوں نہ ہو، اور یہ بات ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے بھی واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے، جب انہوں نے اپنے لشکر کو شام فتح کرنے کی طرف بڑھنے کا حکم ان تاریخی الفاظ کے ساتھ دیا کہ: ’’اور زمین پر فساد برپا نہ کرنا۔‘‘ یہ ہر بڑی مہم کیلئے ایک عظیم ہدایت نامہ ہے۔
تربیتی نقوش:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی قرآن میں مذکور ہر حکم کا بہترین اور جامع عملی نمونہ ہے، انہوں نے قرآن کے ہر چھوٹے اور بڑے حکم کو واضح کیا اور پھر اپنی عملی زندگی سے قرآنی احکام کو بتمام و کمال برتا اور اوجِ کمال تک پہنچایا، ہر چھوٹی یا بڑی چیز کا حکم بیان کیا اور پھر اس سے نمٹنے کا طریقہ واضح کیا۔ اسی طرح اسلام میں صلح وجنگ کے احکام کو واضح کیا اور پھر ان احکامات کو عملی زندگی میں برتنے کا طریقہ سکھایا۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر سے پہلے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: "میں جانتا ہوں کہ بنی ہاشم اور دوسرے لوگوں کو زبردستی نکال دیا گیا ہے، حالانکہ انہیں ہم سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لہذا تم میں سے اگر کسی کا سامنا بنو ہاشم کے کسی فرد سے ہوگا تو اسے قتل نہ کرنا، اسی طرح ابو البختری بن ہشام بن الحارث بن اسد کو بھی کوئی قتل نہ کرے اور جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب کو اپنے مد مقابل پائے تو وہ اسے قتل نہ کرے۔ کیونکہ وہ بھی بادل ناخواستہ جنگ میں شریک ہوئے ہیں۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خونریزی سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرتے تھے، اس لیے وہ ہر شخص کا اسلام قبول کرتے تھے چاہے کوئی ماضی میں کتنا ہی بڑا اسلام کا مخالف اور مسلمانوں کا دشمن رہا ہو۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی سے ملتی ہے جب انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی سرزنش کی جب انہوں نے ایک مشرک لشکری کو اس کے قبول اسلام کے اعلان کے بعد قتل کیا، حالانکہ تمام حالات و واقعات اس بات پر دلالت کر رہے تھے کہ اس نے صرف اپنے آپ کو بچانے کیلئے تبدیلی مذہب کا اعلان کیا۔
امام مسلم نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک وفد مشرکین کے ایک گروہ کے پاس بھیجا اور ان سے ملاقات ہوئی، مشرکین میں سے ایک شخص (جس کا نام نہیق بن مرداس تھا) اگر کسی مسلمان کے پاس جانا چاہتا تھا تو اس کے پاس جاتا اور اسے قتل کرتا، ایک مسلمان نے اس کی غفلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: یعنی راوی نے: اور ہم اسے بتاتے تھے کہ یہ اسامہ بن زید ہیں- اور جب اس پر تلوار اٹھائی گئی، اس نے کہا: لا الہ الا اللہ ۔ چنانچہ اس نے اسے قتل کردیا، چنانچہ خبر دینے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہیں واقعے کی اطلاع دی۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا اور اس نے جواب دیا یہاں تک کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو جب واقعے کے بارے میں مکمل طور معلومات ملی تو انہوں نے اس شخص (اسامہ بن زید) کو بلایا اور پوچھا: تم نے اسے کیوں مارا؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی اور اس نے فلاں فلاں کو قتل کیا۔ اس نے اس کے لیے ایک گروہ نامزد کیا اور میں نے اس پر حملہ کیا، جب اس نے تلوار کو دیکھا۔ اس نے کہا: لا الہ الا اللہ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے قتل کیا؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم روز قیامت لا إله إلا الله سے کیسے نپٹو گے؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ میرے لیے اللہ سے استغفار طلب کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم روز قیامت لا إله إلا الله سے کیسے نپٹو گے؟ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کہ: تم روز قیامت لا إله إلا الله کے ساتھ کیا کرو گے؟
یہ بات حیران کن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقعے پر فرمایا: "خدا کی قسم قریش مجھے کسی ایسے منصوبے کی طرف نہیں بلائیں گے جس سے صلح رحمی ممکن ہو اور حرمتیں پامال ہونے سے بچ جائیں۔ جب تک میں ان کو نہ دوں۔” (بخاری)۔
اور یہ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو یزید بن ابی سفیان کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت نصیحت کر رہے ہیں کہ: "اور تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو ان حرموں میں بند کر رکھا ہے، لہذا انہیں اور ان کے معبدوں کو نہ چھیڑنا، اور کسی بوڑھے، عورت، نوزائیدہ بچے کو قتل نہ کرنا، یا کسی عمارت کو تباہ نہ کرنا، کسی فائدے کے بغیر درخت نہ کاٹنا، فائدے کے بغیر کسی جانور کو ذبح نہ کرنا، کھجور کے درخت کو نہ جلانا اور نہ اسے غرق کرنا، دھوکہ اور خیانت نہ کرنا، مسخ نہ کرنا، نہ بزدلی دکھانا اور نہ دھوکہ کرنا۔” (سنن بیہقی)۔
جب رستم نے فارس کے سپہ سالار ربعی بن عامر سے فارسیوں کے ساتھ جنگ میں مسلمانوں کے مقاصد کے بارے میں پوچھا تو ربعی نے اس سے کہا: "خدا نے ہمیں بھیجا ہے، تاکہ ہم لوگوں کو (ان کی مرضی سے) انسانوں کی غلامی سے آزاد کرکے ان کے رب کی غلامی اور بندگی کی طرف لے آئیں۔ انہیں دنیا کی تنگنائیوں سے اس کی وسعتوں کی طرف لے جائیں، اور مذاہب کی ناانصافیوں سے آزاد کرکے انہیں اسلام کے عدل و انصاف کی طرف لے آئیں۔”
اس وقت خلیفہ عمر بن الخطاب نے شام میں فتوحات کے تسلسل کو روکنے کا پیغام بھیجا تھا تاکہ عراقی محاذ پر فارس کی فوج کے سامنے حالات کو واضح کیا جا سکے جو کہ دو لاکھ جنگجوؤں سے متجاوز تھی۔ شام کے مسلمانوں نے دمشق، حمص اور دیگر مقامات فتح کر لیے تھے اور حلب کو فتح کرنے کے لیے پیش قدمی کر رہے تھے۔ لشکر کے سربراہ ابوعبیدہ بن الجراح نے خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کی اور انہوں نے اور جنگی شوریٰ نے حمص سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا، جسے اس نے امن کے ذریعے وہاں کے لوگوں کی طرف سے ادا کی جانے والی خراج کی بنیاد پر فتح کیا تھا۔
ابوعبیدہ نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ انہوں نے حمص کے لوگوں سے جو رقم لی تھی اسے واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ جزیہ کی ادائیگی کی ایک شرط غیرمسلموں کا دفاع کرنا ہے اور اب مسلمان چونکہ شہر سے نکل رہے تھے اور جب اس نے رقم واپس کی تو حمص کے لوگ ان کے اس اخلاق و کردارپر حیران رہ گئے، کیونکہ وہ اپنے ملک پر رومن بازنطینی قبضے کی وجہ سے عادی نہیں تھے۔ اور انہوں نے ابو عبیدہ سے کہا: "خدا آپ کو ہماری طرف دوبارہ لوٹا دے، اور ان پر لعنت کرے جو رومیوں کی طرف سے ہم پر قابض تھے، لیکن خدا کی قسم، اگر وہ ہوتے تو وہ ایسا نہ کرتے۔ وہ ہمیں ہمارا مال واپس نہ لوٹاتے بلکہ جتنا چاہتے غصب کر لیتے۔ آپ کی سرپرستی اور عدل و انصاف ہمیں اس ظلم اور بربریت سے زیادہ محبوب ہوگا جس میں ہم اب تک تھے، اور ہم ہرکولیس کے سپاہیوں کو اس کے ایجنٹوں سمیت شہر سے واپس دھکیل دیں گے!”
اسی طرح کی ایک اور عظیم مثال مشہور مسلم سپہ سالار صلاح الدین ایوبی نے پیش کی، جس نے 1187ء میں یروشلم (القدس) کو آزاد کرایا۔ اس نے حکم دیا کہ صدقات غریبوں، بیماروں اور صلیبیوں کی بیواؤں کے ساتھ ساتھ یتیموں اور معذوروں میں تقسیم کیے جائیں۔ اس نے یہ بھی حکم دیا کہ قیدیوں کو ان کے گھر والوں کے پاس واپس بھیج دیا جائے، اور اس نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو تاوان کے بدلے معاف کر دیا، یہاں تک کہ ہم نے اسے اکیلے دس ہزار لوگوں کو فدیہ دیتے ہوئے پایا، اور اس کے بھائی ’’عادل بادشاہ‘‘ نے سات ہزار افراد رہا کئے۔
مسلمان اپنی اخلاقی تربیت، جو کہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر غور و فکر کا لازمی نتیجہ ہے، کے اعتبار سے قتل و غارت اور خونریزی سے سخت نفرت کرتا ہے، اس لیے وہ کسی سے جنگ شروع نہیں کرتا، بلکہ لڑائی اور خونریزی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ایسی آیات موجود ہیں جو اس معنی کی اچھی طرح تائید کرتی ہیں، کیونکہ مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت اس وقت تک نہیں ملی جب تک نہ جنگ ان پر مسلط کی گئی، پھر جب مسلمانوں پر جنگ مسلط کی جائے تو اس صورت میں ان پر اپنا اور دین کا دفاع لازمی اور ضروری بن جاتا ہے، ورنہ یہ کردار میں بزدلی اور عزم کی کمی شمار ہوتی ہے۔ پس مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین تعلقات کی اصل بنیاد امن ہے، اور جنگ کا آغاز ظالموں کی جارحیت سے کمزوروں کے خلاف امن کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، اسی لیے اسلام ایک درمیانی راستے کے طور پر آیا، اور اس نے جنگ کو اصول نہیں بنایا، لیکن یہ کبھی ایک دن کیلئے بھی ذلت و رسوائی ، پستی و غلامی کا دین نہیں رہا، بلکہ طاقت اور شرف و منزلت کا دین رہا ہے۔
حوالہ جات:
بوابة الأزهر: مسوغات الحرب في الإسلام.
حسني الخطيب: مبادئ الحرب في الإسلام.
مسعود صبري: الإسلام دعوة سلام لا حرب.
مروان محمد أبو بكر: الحرب في الإسلام.
الشوكاني: فتح القدير 1/293.
البيضاوي: أنوار التنزيل وأسرار التأويل 1/427.
محمد البشير الإبراهيمي: شرعة الحرب في الإسلام.
ابن هشام: السيرة النبوية 1/628.
ابن كثير: السيرة النبوية 2/436.