اسلام نے ترجیحات کو ترتیب دینے اور سب سے اہم کام کو باقی سارے امور پر مقدم رکھنےکا قاعدہ مقرر کیا ہے جس سے ہر فرد کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض و واجبات اور حقوق کو ترتیب دینے میں احتیاط برتے، ، اپنی ضروریات اور اہداف کو منظم کرے، اور یہ جان لے کہ کون سے شعبے ترجیح کے زیادہ مستحق ہیں۔ اور کس شعبے کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نگہداشت اور توجہ ملنی چاہیے، تاکہ وہ اپنے معاشرے کی صحیح تعمیر میں بھر پور حصہ ڈال سکے۔
ترجیحات کی یہ ترتیب اسلامی شریعت کا بنیادی اصول ہے۔ یہ اصول مصالح کا لحاظ اور ان کی تکمیل کے لیے آیا ہے، نیز مفاسد کو ختم یا ان کا اثر زائل کرنے، دو اچھی چیزوں میں سے بہتر آپشن کو ترجیح دینے، کم تر فائدے والی چیز کو بڑے فائدے والی چیز پر قربان کرنے، اور کم تر نقصان کو برداشت کرکے بڑی برائی کو دفع کرنے کی طرف رہنمائی کے لیے آیا ہے۔
اسلام میں ترجیحات کی ترتیب کا مفہوم:
اسلام میں ترجیحات کی ترتیب کا مفہوم "اولیٰ یعنی اہم تر” کے معنی میں آیا ہے۔ جس کا مطلب سب سے زیادہ لائقِ توجہ، سب سے زیادہ اہم اور فائق تر، یا ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنا، تاکہ جو کام پہلے توجہ کے لائق ہو اس میں تاخیر نہ ہو، یا اس کام کو پہلے نہ نپٹایا جائے جو مؤخر بھی کیا جاسکتا ہو۔ اسی طرح نہ ہی بڑے کام کو چھوٹا کیا جائے اور نہ چھوٹے کو بڑا۔
لفظ ترجیحات أولویات کی اصل و، ل، ی = ولی ہے، جو کہ قربت اور اہمیت کے معنی دیتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے میں اس کے قریب بیٹھا۔ اور جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔ ہاں یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔” [القیامة: 34-35] یعنی خدا تعالیٰ تمہیں ایسی تباہی سے ہلاک کردے گا جو تمام برائیوں سے زیادہ قریب ہے۔ اور اصمعی کہتے ہیں: جو چیز اسے تباہ کر دے گی وہ اس کے قریب کردی گئی۔
أولی أفعل کے وزن پرصیغۂ تفضیل ہے جو کہ قربت اور نزدیکی کے معنی میں آتا ہے۔ قرآن پاک میں آیا ہے: "ابراہیمؑ سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو اُن لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور اس کے ماننے والے اِس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں اللہ صرف اُنہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں” [آل عمران: 68] یعنی سب سے زیادہ مستحق اور لائق۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے: فلاں، فلاں سے زیادہ حقدار ہے۔ یعنی ایک کا حق دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ اور حدیث مبارک میں ہے: مال کو اللہ کی کتاب کی رو سے مقرر کردہ حصے والوں کے درمیان تقسیم کرو اور جو حصہ اس تقسیم کے بعد بچ جائے وہ سب سے قریبی مرد رشتہ دار کے لیے ہے، یعنی نسب کے اعتبار سے مورث کا سب سے قریب ترین رشتہ دار، تو وہ زیادہ حق دار اور اقرب ہے۔
اس اصطلاح کا استعمال حال ہی میں ان لوگوں کی تحریروں میں سامنے آیا ہے جو خود نظم و نسق میں دلچسپی رکھتے ہیں، بشمول منتظمین، ماہرین تعلیم، اور وہ لوگ جو کہ اجتماعی نظم و نسق میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔ لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ترجیحات کی مستعمَل روایتی اصطلاحات زیادہ تر جدید ہی ہیں اور وہ بھی بہت کم ہیں، بشمول وہ شعبے اور عمل جنہیں دوسروں پر ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ وہ معاشرے کے اہداف اور مقاصد کے لیے بنیادی نقطہ آغاز ہوتے ہیں۔
ترجیحات اصل میں چیزوں اور معاملات کو ان کی اہمیت و افادیت کے مطابق ایک خاص ترتیب میں رکھنا ہے۔ اور اس کا مترادف لفظ "ترتیب” ہے۔ یعنی وہ کام اور سرگرمیاں جنہیں اپنی اہمیت کے اعتبار سے دوسروں پر سبقت حاصل ہونے کا حق ہے۔
ترجیحات کی اصطلاح اسلامی فقہ میں حال ہی میں وارد ہوئی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کو اس اصطلاح کے علمبرداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ہی "فقہ میں ترجیحات” کا لفظ شامل کرکے اسے ترجیحات کی فقہ بنایا۔ اور عندیہ دیا کہ ترجیحات کی بھی ایک خاص فقہ ہے۔ ان کی اپنی رائے کے مطابق ہر چیز کو انصاف کے ساتھ اس کے مناسب مقام پر ترتیب کے ساتھ رکھنا، وہ احکامات ہوں، اقدار ہوں یا اعمال، جو کہ صحیح معیارات پر مبنی ہوں، جن کی طرف وحیِ الٰہی رہنمائی کرتی ہے۔

قرآن و سنت میں ترجیحات کی ترتیب کا اہتمام:
جو شخص بھی قرآن کریم کی آیات پر غور کرے گا وہ دیکھے گا کہ وہ مطلق احکامات کے ساتھ نازل نہیں ہوئیں، کہ جو لوگوں کے احوال و ظروف اور زمان و مکان سے ماوراء ہیں۔ بلکہ آپ دیکھیں گے کہ جابجا ان احکامات کے اندر ان احوال و ظروف کی رعایت کی گئی ہے، جن سے انسانی معاشرے کو واسطہ پڑتا ہے۔ اور مکلف کی ذاتی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے متبادل ہدایات اور احکامات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے، تاکہ مکلف کو فیصلہ لینے میں آسانی ہو۔ اس مکانیزم پر غور و فکر کرنا ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ احکام و ہدایات کے سلسلے میں ترتیب اور ترجیحات کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ اہم ترین امور کو دوسرے امور کے مقابلے میں ترجیح دی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترش رو ہوا، اور بے رخی برتی ۞ اِس بات پر کہ وہ اندھا اُس کے پاس آ گیا ۞ تمہیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے ۞ یا نصیحت پر دھیان دے، اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ ۞ جو شخص بے پروائی برتتا ہے ۞ اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ۞ حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ ۞ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے ۞ اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے ۞ اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ۞ [عبس: 1-10] یہ سورۃ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس کی ایک جھلک دکھاتی ہے- جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اللہ کی دعوت دیتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ قریش کے زعماء ان کی دعوت سے متاثر ہوکر ان کے ہمنوا ہو جائیں۔ تو اتنے میں عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ (نابینا صحابی ) بھی تشریف لائے جو کہ مطیع ہوکر ہدایت کی غرض سے تشریف لائے تھے، لیکن جب اللہ کے رسول ان کی طرف بالکل بھی متوجہ نہ ہوئے اور وہ مسلسل قریش کے زعماء کی طرف ہی نظر التفات جمائے ہوئے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔
یہ آیات بتاتی ہیں کہ لوگ زندگی کے تمام معاملات کو کیسے درست کریں اور کن امور کو ترجیح دیں؟ اور وہ قدریں (معیارات) کہاں سے حاصل کریں جن کے بل بوتے پر وہ چیزوں کو تولیں۔ چنانچہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ قدریں اللہ تعالیٰ نے خود مقرر کی ہیں نہ کہ ہم انسانوں نے۔
بعض ایسی آیات ہیں جن میں دو الگ الگ فقہی نوعیتوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اور دو نوعیتوں میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اگر اپنے صدقات علانیہ دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے، تمہاری بہت سی برائیاں اِس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو بہرحال اُس کی خبر ہے۔ [البقرة: 271] ۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صدقہ کو خفیہ رکھنا اسے ظاہر کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ یہ ریاکاری سے بعید ہے، الا یہ کہ اسے ظاہر کرنے میں کوئی مصلحت ہو تو اس صورت میں علانیہ صدقہ دینا ہی بہتر ہے۔
اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کریں- ہمیں بہت سے امور، احکامات اور ہدایات میں ترجیحات کو مدنظر رکھنے کا درس ملتا ہے۔ نیز صحابۂ کرام کے تعامل سے بھی اس چیز کا پتہ چل جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، جن میں سے سب سے اولیٰ اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب سے نچلا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا کر اسے دور کرنا ہے۔” [متفق علیہ]
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ایمان کا ایک افضل ترین شعبہ ہے: یعنی اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنا جو کہ کسی بھی عمل کے صحیح ہونے کی بنیادی سند ہے۔ اور اس کا ادنیٰشعبہ کسی تکلیف دہ چیز کو اپنے مسلمان بھائی کے راستے سے ہٹانا ہے۔ اور ان دو شعبوں کے درمیان کافی ساری چیزیں ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے خالی چھوڑا ہے تاکہ غور و فکر کے ذریعے ان کو تلاش کریں۔
امام نووی علیہ الرحمہ نے ان خصوصیات کو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ سے اخذ کیا تو کافی غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ ان خصوصیات کی تعداد ستر سے کافی زیادہ ہے۔ لہٰذا ستر کا لفظ بہت بڑی تعداد کے معنی میں وارد ہوا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ کہا گیا: اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، کہا گیا: پھر کونسا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجِ مبرور۔ [متفق علیہ]
اس طرح کی بہت سی احادیث ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ کس کام میں خیر ہے؟ کون سا کام زیادہ اچھا ہے؟ کونسا عمل اللہ و رسول کو زیادہ پسند ہے؟ وغیرہ۔ یہ سوالات چونکہ ایک ہی نوعیت کے ہیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جواب دیتے وقت سوال کرنے والے کی حالت، اس کا شوق اور ذاتی میلان، حالات وغیرہ کا خیال کرکے اس کے حالات کے مطابق مناسب جواب دیا۔
مذکورہ بالا حدیث کے مطابق سب سے زیادہ ترجیح ایمان کو دی گئی، پھر جہاد کو اور آخر میں حجِ مبرور کو۔ لیکن ایک اور حدیث ہے جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازکو اپنے مقررہ وقت پر ادا کرنا۔ فرمایا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ میں نے کہا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ [مسلم]

اسلام ترجیحات کو کیسے ترتیب دیتا ہے؟
اسلام درج ذیل امور میں ترجیحات کی اہمیت پر زور دیتا ہے:
- سب سے پہلے ایمان اور عقیدے کی طرف توجہ کرنا: اس سے ہماری مراد اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور اس کی توحید ہے، اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان جو کہ بنیادی ارکان میں سے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے۔ [ البقرۃ: 177]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی اس عقیدے کی دعوت دینے اور اس کے لیے اپنے دشمنوں سے لڑنے میں گزار دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک نہ وہ اس چیز کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ [بخاری و مسلم]
- فرائض کو سنن اور واجبات پر مقدم کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے، اور اگر وہ اس میں کامل نکلا تو اسے کامل لکھا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی کمی کوتاہی رہی ہوگی تو کہا جائے گا دیکھو اس نے نوافل ادا کیے ہیں؟ اگر نفلی نمازیں ادا کی ہوں گی تو فرائض کی کمی یہاں سے پوری کی جائے گی۔ [النسائی، اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔]
- حقوق اللہ پر حقوق العباد کو ترجیح: شریعت مطہرہ نے اپنے جملہ احکامات میں حقوق العباد کی رعایت کرنے پر خاصا زور دیا ہے۔ فرض العین جس کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق سے ہے، حقوق العباد کے برعکس اس میں کوتاہی برداشت کی جا سکتی ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں: حقوق اللہ کا معاملہ عفو و درگزر کا ہے جب کہ حقوق العباد بندوں کی باہم رضامندی پر مبنی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ مال و متاع ہو اور نہ درہم و دینار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی کو برا بھلا کہا ہوگا، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کی غیبت کی ہوگی، کسی کا مال ہڑپ کیا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا۔ تو ان سب لوگوں میں اس کی نیکیاں تقسیم ہوں گی اور ان کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہوگا۔ اور آخرکار اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ [مسلم]
- اجتماعی مصلحت کو انفرادی مصلحت پر ترجیح دینا: اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس کے بندوں کے مفادات اجتماعی اور انفرادی نوعیت کے ہوں۔ اسلام نے دونوں کو یقینی بنانے پر اپنی قانون سازی کی ہے۔ اسلام بندوں کے مصالح کے اردگرد گھومتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ [الرعد: 17] اور حق بذات خود عینِ مصلحت ہے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مصلحت کے اس جوہر کو خوب سمجھا تھا۔ جس کا اظہار ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے رستم کے دربار میں اس انداز سے کیا۔ "ہم وہ قوم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ ہم انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے انسانوں کے رب کی غلامی اور عبادت کی طرف لے آئیں۔ مذاہب کے ظلم و جبر سے لوگوں کو اسلام کے عدل کی طرف لے آئیں، اور انہیں دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعتوں کی طرف لے آئیں۔”
- برائی سے بچنے کو تھوڑی سی مصلحت پر مقدم رکھنا: یہ فقہ اسلامی کا بہت بڑا قاعدہ ہے اور اس کی دلیل خدا تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ: اور اے ایمان لانے والو یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔[الانعام: 108 ] خدا تعالیٰ نے صحابہ کرام کو معبودانِ باطل پر یا ان کی عبادت کرنے والوں پر لعنت بھیجنے یا ان کی تحقیر کرنے سے منع کیا ہے، حالانکہ جھوٹے معبودوں پر لعنت بھیجنا قابل تعریف عمل ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ اور یہ عمل باعثِ ثواب ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اچھے عمل سے اس وقت باز رہنے کا حکم دیا ہے جب اس کی پاداش میں معبود حقیقی پر لعنت بھیجی جائے۔
لہٰذا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام میں ترجیحات وہ اصول اور قاعدہ ہے جس کی بنیاد اعمال یا امور کے مراتب کا صحیح فہم و ادراک ہے۔ اور افضل و غیر افضل اعمال کی صحیح معرفت، اور راجح و مرجوح کا صحیح شعور، جس کی بنیاد مراتب کا صحیح علم ہے۔ اور اس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے تاکہ اہم ترین مصالح کو کم سے کم نقصان کے ساتھ حاصل کیا جا سکے اور ان نتائج کو جان لیا جائے جو ان اعمال کے اطلاق سے حاصل ہوں۔
مصادر ومراجع:
- أبو الحسين أحمد بن فارس: مجمل اللغة، ص 762
- محمود بن عبد الله الحسيني الألوسي: روح المعاني في تفسير القرآن والسبع المثاني، 29/149
- ابن منظور: لسان العرب، 5/401
- سعدي أبو جيب: القاموس الفقهي لغة واصطلاحا، ص 388
- امتثال محمد السقا: تطوير أنموذج لتحديد الأولويات في التخطيط التربوي، ص13
- جودت أحمد سعادة: تدريس مهارات التفكير، ص 217
- عادل بن محمد السليم: الأولويات وضوابطها، ص 22
- يوسف القرضاوي: في فقه الأولويات دراسة جديدة في ضوء القرآن والسنة، ص 9
- ابن كثير، تفسير القرآن العظيم 4/604
- سيد قطب: في ظـلال القرآن، 6/3823
- انظر النووي: شرح النووي على صحيح مسلم، 2/4
- العسقلاني: فتح الباري، 2/10
مُترجِم: عاشق حسین پیرزادہ