استاذ الجاحظ کے تعلیمی افکار کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے علم کے تہذیبی فوائد اور اس کی فضیلت کو فقہاء کے نقطہ نظر سے ہٹ کر مختلف انداز میں دیکھا۔ جہاں فقہاء کرام نے علم کو دینی اور شرعی نکتہ نظر سے دیکھا، وہیں استاذ الجاحظ نے علم کو انسانی ضرورت اور ترقی کا ذریعہ قرار دیا جس سے انسان اپنا رزق حاصل کرتا ہے۔
الجاحظ کون تھے؟
آپ کا پورا نام ابوعثمان عمرو بن بحر بن محبوب بن فزارہ اللیثی الکنانی البصری تھا۔ آپ کو آنکھوں کی ابھری ہوئی ساخت کی وجہ سے جاحظ کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ قبیلہ کنانہ سے تھے، یا کنانہ کے حلیف تھے۔ آپ کی پیدائش بصرہ میں 159 ہجری (775 عیسوی) میں عباسی خلیفہ مہدی کے دور میں ہوئی۔ آپ کی وفات 255 ہجری (868 عیسوی) میں 96 سال کی عمر میں خلیفہ مہتدی کے دور میں ہوئی۔ اس طرح آپ نے تقریباََ بارہ عباسی خلفاء کا زمانہ دیکھا۔
جاحظ کو بصرہ سے گہری محبت تھی جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔ بچپن سے ہی وہ شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہے۔ اپنی کتابوں میں انہوں نے بصرہ کے علماء، ادیبوں، فصیح لوگوں، راویوں، بخیلوں، تاجروں اور بزرگوں کے قصے بیان کیے۔
اس شہر کے ماحول میں یہ عظیم دانشور اپنی ابتدائی زندگی میں مریدی بازار کے قریب روٹی اور مچھلی بیچ کر گزر بسر کرتے تھے۔ لیکن غربت نے ان کے علم کی خواہش کو کم نہیں کیا۔ وہ مسلمان علماء کی مجالس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور اس ماحول سے فیض یاب ہوتے۔ ہر چیز کو مطالعہ کا موضوع بناتے۔
بچپن سے ہی انہیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، یہاں تک کہ ان کی والدہ تنگ آ گئیں۔ یہ شوق پوری زندگی قائم رہا۔ وہ کتاب فروشوں کی دکانیں رات میں کرایے پر لیتے تاکہ جتنا ممکن ہو پڑھ سکیں۔ انہوں نے مختلف ذرائع سے علم حاصل کیا۔ عربی زبان کا علم ابوعبیدہ، اصمعی، اور ابو زید انصاری جیسے بڑے علماء سے حاصل کیا۔ نحو و صرف اخفش سے جب کہ علم الکلام ابراہیم بن سیار سے سیکھا۔
وہ مختلف سماجی طبقات میں گھل مل گئے تھے جس سے ان کے علم میں اضافہ ہوا۔ وہ دکانداروں، شاعروں، ادیبوں، بادشاہوں اور وزراء سے ملتے رہتے۔ مساجد کی علمی محفلوں میں شریک ہوتے جہاں وسیع موضوعات پر بحث ہوتی۔ ان کے علم کی وسعت اور ہمہ گیریت کے بارے میں ابن یزداد نے کہا ہے کہ : "وہ تمام علوم میں منفرد تھے؛ علم الکلام، اخبار، فتویٰ، عربی، تفسیر قرآن، اور عرب کی تاریخ میں، ساتھ ہی فصاحت میں بھی۔”
جاحظ کے تعلیمی افکار:
جاحظ نے تعلیم و تربیت کے شعبے میں بہت اہم کام کیا ہے۔ تاریخ کے بارے میں ان کا تعلیمی نقطہ نظر یہ تھا کہ نسلوں کو علم کی منتقلی کی ذمہ داری نبھانی چاہیے تاکہ ثقافت ضائع اور منتشر نہ ہو۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: "ہمیں اپنے بعد والوں کے لیے وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو ہم سے پہلے والوں نے ہمارے لیے ادا کیا۔ کیونکہ ہمارے بعد والوں کو ہم سے زیادہ عبرت ملے گی۔”
ان کے اہم تعلیمی افکار درج ذیل ہیں:
- کتاب کی اہمیت: انہوں نے معاشرتی زندگی میں کتاب کی اہمیت کو سمجھا اور فرمایا: "اگر کتاب نہ ہوتی تو ماضی کی خبریں درہم برہم ہو جاتیں اور گزرے ہوئے لوگوں کے آثار منقطع ہو جاتے۔ زبان اس کے لیے ہے جو موجود ہے، جب کہ قلم غائب، ماضی اور مستقبل کے لیے ہے۔ اس طرح اس کا فائدہ عام ہے۔”
- بچے سے معلم کا برتاؤ: بچے کی تعلیم و تربیت میں میانہ روی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: "بچے پر سختی نہ کرو کہ وہ ادب سے نفرت کرنے لگے، اور نہ اسے بالکل آزاد چھوڑ دو کہ وہ کھیل کود کا عادی ہو جائے۔”
- بچے کی شخصیت کی تفہیم: جاحظ کے نزدیک معلم کو چاہیے کہ وہ بچے کی شخصیت کو سمجھے اور اس کے قریب ہونے کے لیے اپنی فصاحت و بلاغت کو تھوڑا کم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
- نحو کی تعلیم: بچے کو صرف وہی نحو سکھائی جائے جو اس کے لیے مفید ہو، غیر ضروری قواعد سے بچا جائے۔
- حفظ اور استنباط: طلباء کو پڑھی ہوئی چیز کو سمجھنے کی تربیت دی جائے، محض حفظ پر زور نہ دیا جائے۔ وہ استنباط کے حامی تھے جو کہ ان کے منطقی رجحان کا مظہر ہے۔
- تعلیم یا پڑھائی کا وقت: انہوں نے سحر کے اوقات کو تعلیم کے لیے بہترین قرار دیا کیونکہ یہ مصروفیات سے پہلے اور مکمل آرام کے بعد کا وقت ہے۔
- علم کی اہمیت: وہ علم کو ہر خیر کی بنیاد قرار دیتے ہیں، جس سے اچھائی اور برائی اور حلال و حرام کا فرق واضح ہوتا ہے۔
- لوگوں کی رہنمائی: ان کے مطابق لوگوں کی رہنمائی ضروری ہے چاہے وہ اس کی قدر نہ کریں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں مؤدب رہنماؤں کا ہونا ضروری ہے تاکہ لوگ اپنی خواہشات کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔
- نفسیاتی عوامل: لوگوں کی رہنمائی میں نفسیاتی پہلوؤں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ کتابوں کے ذریعے رہنمائی پر براہ راست رابطے کو ترجیح دیتے ہیں۔
- انفرادی تفاوت: یہ زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے جو معاشرے کو اس کی خصوصیت عطا کرتی ہے۔ اصمعی کا قول ہے کہ جب تک لوگوں میں فرق رہے گا، وہ بہتر رہیں گے، جب کہ مساوات میں ہلاکت ہے۔
- عربی زبان: انہوں نے آسان الفاظ کی تعلیم پر زور دیا اور مشکل معانی، تکلف اور پیچیدہ عبارات سے بچنے کی تلقین کی۔
- دباؤ کے بغیر تعلیم: ان کا ماننا ہے کہ طلباء کا تعلیم سے محبت کرنا انہیں تیزی سے علم سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔
- ساتھی طلباء: پڑھائی اور کھیل کود کے ساتھی طالب علم کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ پڑ ھائی سے دلچسپی رکھنے والے ساتھی تعلیم کے لیے حوصلہ افزا ہوتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس ساتھی تعلیم سے نفرت پیدا کر سکتے ہیں۔
جاحظ کی نمایاں ادبی اور تعلیمی تصانیف:
جاحظ نے متعدد ادبی اور تعلیمی کتب تصنیف کیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں:
- تہذیب الاخلاق: اس کتاب میں انہوں نے اخلاق کی فلسفیانہ تشریح کرکے انسانی نفسیات پر اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب اخلاقی نظریات کی ایک عمدہ دستاویز بن گئی جو انسان کو اخلاقی بلندی تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔
- الآمل والمأمول: یہ کتاب بہترین پیرائے میں انسانی کردار اور فکر کی وضاحت کرتی ہے۔ اس میں سائل اور مسئول کی صفات کو نوادر اور واقعات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔
- التاج فی اخلاق الملوک: یہ عربی ورثے کی ایک بیش قیمت کتاب ہے جو بادشاہوں، ان کے طرز حکمرانی، مجالس، اور ان سے تعلق رکھنے کے آداب پر مشتمل ہے۔
- البیان والتبیین: اس میں ادب، بیان، فن گفتگو، بلاغت، فصاحت، زبان کی خرابیاں، اور تقریر کے عیوب وغیرہ کا ذکر ہے۔ اس میں خطابت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
- رسائل الجاحظ: یہ مشہور ادبی مجموعہ ہے جس میں مختلف موضوعات پر گہری تحقیق پیش کی گئی ہے۔ ہر رسالہ ایک متعین موضوع پر جامع معلومات پیش کرتا ہے۔
- کتاب الحیوان: یہ جانوروں کے علم پر پہلی جامع کتاب ہے جو سات حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں جانوروں کی فطرت، ان کے بارے میں کہانیاں، لطیفے، اور عرب کی روایات کا ذکر ہے۔
- کتاب البخلاء: یہ کتاب عباسی دور کی معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں گھریلو زندگی، لوگوں کی عادات، اور معاشرتی رویوں کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
- کتاب المحاسن والاضداد: یہ جاحظ کی بہترین تصانیف میں سے ایک ہے جس میں چیزوں کے حسن و قبح، رسم و رواج، اور کردار کی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر ہے۔
- کتاب الحنین الی الاوطان: ادب کی ایک اہم کتاب جس میں نوادرات، حکمت، امثال، اور عربی ادب کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
- سلوۃ الحریف بمناظرۃ الربیع والخریف: اس کتاب میں موسم بہار اور خزاں کے محاسن اور ان کی خوبصورتیوں کا ذکر دلکش ادبی اسلوب میں کیا گیا ہے۔
- البرصان والعرجان والعمیان والحولان: یہ کتاب مختلف معذوریوں کا ذکر کرتی ہے اور ان میں مبتلا مشہور شخصیات، شعراء، اور خطباء کا تذکرہ ان کی عظمت اجاگر کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
جاحظ نے مختلف علمی شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ تعلیم و تربیت کے میدان میں ان کی گراں قدر خدمات نے محققین کو بچوں کی تربیت کے لیے مناسب و موزوں نظریات اور طریقے وضع کرنے میں مدد دی ہے۔ انہوں نے اساتذہ اور مربیوں کے لیے طلباء سے مؤثر تعامل کے صحیح طریقے بیان کیے جو آج بھی راہ نما کا کردار ادا کرتے ہیں۔
مصادر و مراجع:
- سلیمہ سوادی زعیر: "جاحظ کے تعلیمی افکار کی حکمت عملیاں”، صفحہ 433-434
- قاسم جودہ: "جاحظ کے تعلیمی افکار”، صفحہ 518-519
- ابن الندیم: "الفہرست”، صفحہ 175
- حسن السندوبی: "ادب الجاحظ”، صفحہ 12
- ابن خلکان: "وفیات الاعیان”، جلد 3، صفحہ 240
- . الجاحظ: "البیان والتبیین”، صفحہ 129
مترجم: عاشق حسین پیر زادہ