بہت سے شادی شدہ جوڑوں کو ازدواجی زندگی میں ناخوشگواری (ناچاقی) کے باعث بات چیت بند رہنے جیسے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے، جو رشتے میں سرد مہری اور جمود کی علامت ہے۔ بلکہ اس کا بچوں کی تربیت پر بھی خطرناک اثر ہوتا ہے، کیونکہ وہ والدین سے بات چیت کا مفہوم نہیں سیکھ پاتے، اسی لیے اس سے گھروں کے ٹوٹنے اور خاندان کے بکھرنے کے خطرات بھی لاحق ہو جاتے ہیں، جب ایک شریکِ حیات خاموشی اختیار کرتا ہے جب کہ دوسرا بات چیت کے راستے کھولنے کی کوشش کرتا ہے، مگر سب بے سود۔
بعض اوقات میاں بیوی اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں پاتے جو کہ گھریلو استحکام کو تہ و بالا کر سکتی ہے، حالانکہ ازدواجی زندگی کی بنیاد کچھ اصولوں پر ہوتی ہے جن پر اس کا قیام ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی، یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں” [الروم: 21]؛ تو شوہروں اور بیویوں کے درمیان اچھا، مسلسل اور درست رابطہ ازدواجی تعلق، اس کے استحکام اور ہم آہنگی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے، پھر اس کا مثبت اثر پورے خاندانی نظام کی درستگی اور بچوں کی نفسیاتی سکون میں پرورش پر بھی پڑتا ہے۔
ازدواجی “گنگ پن” یا عدم گفتگو:
شوہر کا یہ گُنگ پن (سردمہری / خاموش رویہ/ عدم گفتگو) ایک ایسا معاملہ ہے جو بہت سی خواتین میں مایوسی کے جذبات کو جنم دیتا ہے، کیونکہ عورت دیکھتی ہے کہ اُس کا شوہر جب گھر سے باہر ہوتا ہے تو ہنستا ہے اور مذاق کرتا ہے، مگر جونہی وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو جیسے بولنے سے مفلوج ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہ خاموشی مرد کو بھی اندر سے چبھتی ہے اور اُسے سخت بے چینی میں مبتلا کرتی ہے۔
میاں بیوی کے درمیان خاموشی دراصل بےحسی کی ایک کیفیت ہے جو ان کی زندگی کے کسی مرحلے میں آ گھیرتی ہے، اور اس کا مظاہرہ یوں ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے حل پر باہم گفتگو یا سمجھوتا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
مظاہر:
شوہر اور بیوی کے درمیان گُنگ پن کی کئی ظاہری شکلیں ہوتی ہیں جو بہت سے گھروں کو پریشان کر دیتی ہیں۔ ایسے میں تعلقات بہتر بنانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اس سرد مہری، عدم گفتگو یا گنگ پن کے مظاہر حسب ذیل ہیں:
وقت گزارنے کے لیے جدوجہد:
جب میاں بیوی کے درمیان گفتگو یا کسی مشترکہ موضوع کی کمی ہو جائے، اور وقت گزارنا محض ایک روزمرّہ مشق بن جائے، جس میں ہر ایک اپنے موبائل یا ذاتی مشغولیت میں لگا رہے۔
جسمانی تعلقات سے بےرغبت ہونا:
یہ اس مسئلے کی ابتدائی علامات میں سے ہے؛ جب دونوں ایک دوسرے سے دور ہو جائیں اور وہ محبت و سکون کے جذبات جو انہیں قریب لاتے تھے، ماند پڑ جائیں، جس سے زندگی میں بےاطمینانی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
دلچسپیوں میں شراکت کا فقدان:
جب شوہر یہ نہ پوچھے کہ بیوی کے دل میں کیا ہے یا وہ کیا پسند کرتی ہے، اور بیوی بھی یہی رویہ اپنائے، ہر ایک صرف اپنی بات کرے؛ شوہر کا سارا ذکر کام سے متعلق ہو، اور بیوی صرف گھریلو دباؤ اور بچوں کی پرورش کی بات کرے۔
مسلسل دفاعی رویہ اور خود کو درست ثابت کرنا:
جب دونوں طرف سے ایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی کا ماحول بن جائے، اور ہر ایک اپنی صفائی دینے میں لگا رہے۔
وقت الگ الگ گزارنے کی خواہش:
جب شوہر گھر سے باہر دوستوں کی صحبت میں خوش ہو اور بیوی صرف اپنی سہیلیوں یا خریداری میں دلچسپی رکھے، اور دونوں کے درمیان اکٹھا گزارنے کو وقت ناپید ہو جائے۔
مجرد زندگی کی خواہش:
جب دونوں میں سے ہر ایک یہ چاہے کہ کاش وہ بغیر کسی ذمہ داری یا تھکن کے اکیلا زندگی گزار سکتا۔
مسائل کے وجود کا انکار:
بعض اوقات میاں بیوی اپنی مشکلات کو تسلیم ہی نہیں کرتے، صرف اس لیے کہ زندگی کسی طرح چلتی رہے یا اس خوف سے کہ کہیں گھر نہ ٹوٹ جائے یا بچے برباد نہ ہو جائیں، لیکن بالآخر یہ طرزِ عمل دھماکے کا پیش خیمہ بنتا ہے، اس لیے دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسئلے کے وجود کو تسلیم کریں۔
اسباب:
زوجین کے درمیان خاموشی (عدم گفتگو) کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، جو آج کل بہت سے جوڑوں کے درمیان طلاق کا سبب بن چکی ہیں۔ اگرچہ ہر گھر کے حالات مختلف ہو سکتے ہیں، تاہم عمومی وجوہات درج ذیل ہیں:
- میاں بیوی کے درمیان گفتگو کا کا فقدان، اور اگر کچھ گفتگو ہو بھی، تو وہ صرف الزام تراشی، جھگڑے، شکایتوں اور پرانے جھگڑوں کے تذکرے تک محدود ہوتی ہے، جنہیں موجودہ معاملے میں گھسیٹا جاتا ہے، اور یہ سب بالآخر ایک دوسرے سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔
- شوہر اور بیوی کی پرورش کا ماحول؛ یعنی جس گھر میں بیوی پلی بڑھی یا شوہر کی پرورش ہوئی، وہ ماحول بھی بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر وہ گھر بھی اس خاموشی کے رویے کا شکار تھا، تو ممکن ہے کہ شوہر یا بیوی اسی رویے کو اپنے ساتھ شادی میں بھی لے آئیں۔
- خاندانی اور مالی مسائل؛ جو میاں بیوی کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دیتے ہیں، خاص طور پر جب ان مسائل پر بات کرنے اور انہیں حل کرنے کے لیے وقت نہ نکالا جائے، یا کم از کم ان کا بوجھ کم نہ کیا جائے۔
- جذباتی کنجوسی؛ بعض شوہر بیوی کی تعریف کرنے، اس کی قربانیوں کو سراہنے یا اس کے حسن و خوبی کا اعتراف کرنے کو فضول سمجھتے ہیں، اور ان باتوں کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔
- مشترکہ دلچسپیوں کی کمی؛ جب دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن ہوں اور ایک دوسرے کی پسند و ناپسند سے بےخبر ہوں۔
- اقتصادی وجوہات؛ جب شوہر کو اپنی مالی ذمے داریاں بہت بھاری محسوس ہوں اور وہ بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری نہ کر پائے، تو اس پر نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
- جدید ٹیکنالوجی؛ اس نے شوہر اور بیوی کے درمیان خاموشی کو بڑھا دیا ہے، کیونکہ اب اکثر گھرانے ٹی وی کے سامنے مصروف رہتے ہیں، یا سوشل میڈیا میں گم رہتے ہیں، ہر فرد اپنی دلچسپی کے مطابق الگ دنیا بنا لیتا ہے، اور اس کا تعلق دوسرے افراد سے کم ہوتا جاتا ہے۔
منفی اثرات:
زوجین کے درمیان خاموشی کے منفی اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں، جو خاندان پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
جذباتی سرد مہری:
یہ خاموشی کا سب سے خطرناک اثر ہے، جو محبت کے خاتمے، بےرغبتی اور اس خوبصورتی کے زوال کا باعث بنتی ہے جو کبھی دونوں کے درمیان موجود تھی۔
نفسیاتی علیحدگی:
جب میاں بیوی کے درمیان گفتگو ختم ہو جائے تو ہر ایک اپنی دنیا میں الگ تھلگ ہو جاتا ہے، اور پھر بات “نفسیاتی طلاق” تک پہنچتی ہے، جو بالآخر “عملی طلاق” میں بدل سکتی ہے۔
بیوفائی (خیانت):
ازدواجی خاموشی میاں بیوی میں سے کسی ایک یا دونوں کو اس طرف مائل کر سکتی ہے کہ وہ کسی تیسرے فرد کی طرف رجوع کریں جو انہیں توجہ دے، سمجھے، اور ان کے جذبات و ضروریات پر بات کرے۔
بچوں کے لیے غیر صحت مند ماحول:
اس خاموشی کے منفی اثرات صرف میاں بیوی تک محدود نہیں رہتے بلکہ بچوں کی نفسیات پر بھی پڑتے ہیں، کیونکہ جب والدین کے درمیان بات چیت نہ ہو تو گھر کا ماحول افسردہ اور بوجھل بن جاتا ہے، جو بچوں کو بھی اداسی اور ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔
جسمانی بیماریوں کا سامنا:
جب میاں بیوی طویل عرصے تک ذہنی دباؤ کا شکار رہیں، تو اس کے جسمانی اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں، جیسے کہ آنتوں کی سوزش (آئی بی ایس)، بلڈ پریشر، شوگر، موٹاپا، ذہنی دباؤ، چڑچڑاپن، بے خوابی وغیرہ۔
طلاق:
بہت سی طلاقوں کی بنیادی وجہ یہی خاموشی اور عدم گفتگو ہوتی ہے، جو رفتہ رفتہ تعلق کو توڑ دیتی ہے۔
علاج:
اسلام نے میاں بیوی کے درمیان خاموشی کے مسئلے کو واضح تعلیمات کے ذریعے حل کیا ہے، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان بھی فرمایا اور اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ عملی طور پر نافذ بھی کیا، تاکہ یہ طریقۂ کار تمام مسلمانوں کے لیے رہنمائی بن جائے۔ چنانچہ اسلام میں میاں بیوی کا رشتہ سکون، محبت اور رحمت پر قائم ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے تمام معاملات میں دلچسپی لیتے، ان کے مسائل اور خیالات کو سنجیدگی سے لیتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب حبشیوں کو برچھیاں چلاتے دیکھنا چاہتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کی خواہش پوری کی۔ جب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیگر ازواجِ مطہرات ان کے یہودی نسب پر چھیڑتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہو کہ میرے والد ہارون، چچا موسیٰ، اور شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو محبت سے “عائش” کہہ کر بلاتے، خوش خبریاں سناتے، نرمی اور شفقت سے پیش آتے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: “میں حالتِ حیض میں پانی پیتی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی تو وہ میرے منہ کے نشان پر منہ رکھ کر پیتے، اور میں گوشت چباتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ سے چبایا ہوا گوشت کھاتے” [مسلم، نسائی]۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی موقع کو اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتے، حضرت عائشہ کے ساتھ دو مرتبہ دوڑ لگائی، پہلی بار حضرت عائشہ آگے نکل گئیں، دوسری بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیت گئے اور فرمایا: “یہ بدلہ ہے!”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، ان پر صبر کرتے، ان کو خوش رکھتے، ان سے مشورہ لیتے، شفقت و محبت سے پیش آتے، عدل کرتے، وفا شعاری کا احساس دیتے رہتے تھے۔ یہ سب تعلیمات ازدواجی زندگی میں سرد مہری یا عدم گفتگو (صمتِ زوجی) جیسے مسئلے کا بہترین حل پیش کرتی ہیں۔
مترجم: زعیم الرحمان