شریعت کی حدود سے باہر مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول (اختلاطِ مرد و زن) ہمارے اکثر عرب اور اسلامی معاشروں میں تقریباََ غالب خصوصیت بن چکا ہے، حتیٰ کہ اسے ان ممالک میں ایک تعلیمی پالیسی کے طور پر اپنایا جا چکا ہے، جہاں مردوں اور عورتوں کو تعلیمی گاہوں میں اکٹھے رکھا جاتا ہے، اس چیز کا لحاظ کیے بغیر کہ اس طرح کے آزادانہ میل ملاپ سے کتنی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں اور اس وجہ سے تعلیمی معیار کس حد تک گر جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان میں سے اکثر ممالک اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اپنی پالیسیوں کی حمایت اور جواز میں اجتماعی ،عالمی اور تاریخی منظر نامے سے شواہد ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیش کرتے ہیں۔
جب کہ اس کے برعکس مردوں کو عورتوں سے الگ تھلگ رکھنا اس فطرت کے عین مطابق ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کی ہے، اور جس کے اوپر عالم بشریت اپنی پوری تاریخ میں مشرق و مغرب میں قائم رہی۔ یہاں تک کہ جدید تہذیب اختلاط مرد و زن کی گمراہی لے کر آگئی، جو کہ زنا، بیماریوں، معاشرتی ٹوٹ پھوٹ اور نسب ونسل کی تباہیوں کی سب سے اہم وجہ بن گئی۔
اسلام کی نظر میں اختلاطِ مرد و زن:
اسلام مردوں اور عورتوں کے درمیان اس طرح کے میل جول سے منع کرتا ہے جس سے معاشرے کو خطرات لاحق ہوں، اس کی جڑیں کھوکھلی ہوں اور معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے۔ اس طرح کے میل جول کے خلاف قرآن و سنت اور سلف صالحین کی زندگیوں میں واضح دلائل موجود ہیں جو دین کی اصل سمجھ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ” مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں” [النور: 30] اور فرمایا: “اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں” [النور: 31] اور غض بصر کا مطلب ہے اپنی نگاہیں پھیر لینا جو کہ فتنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں اور برائیوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادر لٹکایا کریں، اس سے یہ ممکن ہے کہ ان کی پہچان ہو تاکہ ستائی نہ جائیں” [الأحزاب: 59] جلباب وہ لباس ہے جو ایک عورت کو اوپر سے نیچے تک ڈھانپ لیتا ہے، یا ہر وہ لباس جو عورت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے۔ اور اپنے اوپر لٹکانے کا مطلب اپنے اوپر ڈھیلا چھوڑنا ہے اور خود کو ڈھانپنے سے مراد پاکیزگی اور متانت سے رہنا ہے کیونکہ جو عورت اس طرح پردہ کرے گی اس کی عزت پر کوئی فاسق وفاجر نظر ڈالنے کی لالچ نہیں کرسکتا۔ پھر کوئی فاسق اسے اس طرح تعرض نہیں کرے گا کہ اسے نقصان پہنچا سکے جس طرح اس عورت کو چھیڑتے ہیں جو اپنی زینت کی نمائش کرتی پھرتی ہے۔
اس کے علاوہ جو بات اس اختلاط کی حرمت کی تصدیق کرتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ ہیں: “اور اگر تم لوگ ان ( ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو، یہ بات تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر ہے” [الاحزاب: 53] ۔ یہ ربانی حکم اس امت کے پاک ترین نفوس یعنی صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دیا جاتا ہے۔ اور اس امت کی پاکیزہ تر مثالی عورتوں امہات المومنین کو سنایا جاتا ہے، اللہ ان سے راضی ہو۔
اختلاط مرد و زن کی ممانعت کے بارے میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں امام بخاری نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے: “عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: آپ کے نزدیک مرد ہم عورتوں سے سبقت لے گئے ہیں اس لیے ہمارے لئے اپنا ایک دن مختص کر لیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک دن رکھنے کا وعدہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت کی اور کچھ باتوں کا حکم دیا۔ ان باتوں میں ایک بات یہ تھی کہ “تم میں سے جس عورت کے تین بچے پہلے مر جائیں وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے ڈھال بنیں گے تو ایک عورت نے کہا: ” اور دو کے متعلق کیا حکم ہے “فرمایا: دو بھی ڈھال بنیں گے”
امام بخاری نے صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ مومن عورتیں فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتی تھیں وہ اپنے سروں پر دوپٹہ اوڑھی ہوتی تھیں اور جب وہ نماز ادا کرکے گھر کی طرف واپس چل پڑتی تھیں انہیں اندھیرے میں کوئی نہیں پہچانتا تھا۔
صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کو محرم کے بغیر سفر نہیں کرنا چاہئے اور محرم کی غیر موجودگی میں اس کے پاس کوئی نہ داخل ہو اور ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ میں فلاں لشکر میں جانا چاہتا ہوں۔ اور میری بیوی حج کو جانا چاہتی ہے۔ آپ نے فرمایا، ” اپنی بیوی کے ساتھ چلے جاؤ”
صحابہ اور تابعین نے اسی اخلاقی نہج پر زندگی گذاری۔ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ میل جول کرنے کی اجازت دینا تمام بدبختیوں اور برائیوں کی جڑ ہے، اور یہ اجتماعی سزاؤں کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، نیز اجتماعی اور انفرادی معاملات میں فساد کی ایک وجہ ہے۔ اموات عامہ اور مہلک طاعون کی وجہ بھی یہی ہے۔ جب طوائفیں موسٰی علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ گھل مل گئیں اور ان میں فحاشی پھیل گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون نازل کیا تو ایک ہی دن میں ستر ہزار افراد ہلاک ہو گئے اور یہ قصہ تفسیر کی کتابوں میں مشہور ہے۔
اختلاطِ مرد و زن کے نقصانات:
مردوں اور عورتوں کے درمیان میل میلاپ سے کئی طرح کے نقصانات ہوتے ہیں جن میں درج ذیل نقصانات )اخلاقی، عملی، بدنی، نفسیاتی، سماجی، معاشی، عقلی اور تعلیمی( قابلِ ذکر ہیں:
- اخلاق اور طرزعمل کو پہنچنے والا نقصان: یہ سب فحاشی کے پھیلنے، اس کو ہلکا سمجھنے اور نظروں کو حرام کی طرف دیکھنے کی کھلی چھوٹ دینے سے ہوتا ہے۔ تعلیم میں اسی اختلاط کی وجہ سے برطانیہ کے اسکولوں میں حاملہ طالبات کا نیا رجحان پھیل گیا ہے، اور یہ دیکھا گیا ہے کہ اس کا کوئی مکمل علاج ڈھونڈے بغیر محض ظاہری طور پر اس رجحان کو کم کرنے کے لیے لڑکیوں کی طرف سے برتھ کنٹرول کی گولیوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
- عورت میں حیا کی کمی: جب ایک عورت مردوں کے نزدیک رہے گی، ان کے ساتھ معاملات میں حصہ لے گی اور ان کے ساتھ گھل مل جائے گی تو اس کا یہی نتیجہ نکل آئے گا۔ اور سب سے زیادہ برا سلوک ایک غیر محرم دوسرے غیر محارم کے ساتھ اس وقت کرتا ہے جب ایک عورت میں بے باکی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ قلت حیا ہے۔
- پردے میں کمی: اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے مردوں کے سامنے طویل وقت گذارنا پڑتا ہے، ان کے ساتھ مختلف جگہوں اور کاموں میں تعاون کرنا پڑتا ہے، لہٰذا وہ ان سے مانوس ہو جاتی ہے اور انہیں اجنبی مردوں کی نظر سے نہیں دیکھتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ دیگر کمزور دلیلیں جنہیں شیطان اس کے سامنے مزین کرکے پیش کرتا ہے تو وہ اپنے رب کی نافرمانی کر بیٹھتی ہے۔ جس نے اس کو حکم دیا تھا کہ وہ حجاب کرے۔ اللہ کا فرمان ہے: “انہیں چاہیے کہ اپنے سینوں پر چادر ڈال دیا کریں” [النور: 31]۔
- مردوں سے تعلق: عورت اپنے جذبات کے سامنے کمزور ہوتی ہے، ہوسکتا ہے وہ اپنے کام کے شعبے میں کسی ایسے مرد سے جڑی ہوئی ہو، جو خوبصورت بھی ہو اور جس کا اخلاق اچھا ہو، یا جس کا اچھا رویہ اور اثر ونفوذ اسے پسند ہو۔ لیکن وہ اس کے لیے حلال نہیں ہے کیونکہ اس کا اپنا شوہر ہے تو اس طرح عورت دونوں طرف سے آگ میں جل جاتی ہے یا تو اللہ کے حرام کردہ کاموں میں مبتلا ہو کر اپنے جذبات اور خواہشات کی پیاس بجھائے یا پھر اپنی خواہشات کو دبا کر اندر ہی اندر کڑھتی رہے۔
- تنہائی میں پڑنا: مخلوط شعبوں میں کام کرنے والی عورت کو کسی بھی صورت میں کسی ساتھی یا منیجر کے ساتھ اکیلے رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی خلاف ورزی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کوئی مرد ایک عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر خلوت میں نہ بیٹھے” [مسلم]۔
- میاں بیوی کی خیانتیں: اختلاط اس آفت کا دروازہ ہے۔ جب مرد اپنی بیوی سے مطمئن نہیں ہوتا اور ہر صبح وہ خوبصورت عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ ایسے ہی عورت بھی اپنے شوہر کے ساتھ خوش نہیں ہوتی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں کو دیکھتی ہے جو خوبصورتی، اخلاق اور سلوک میں اس کے شوہر سے بہتر ہیں۔
- میاں بیوی کے درمیان شکوک و شبہات کی کثرت: شوہر اپنی بیوی پر اس کے ساتھیوں کے ساتھ شک کرتا ہے، اور بیوی شوہر پر اس کے ساتھیوں کے متعلق شک کرتی ہے، لہٰذا ان کے درمیان بہت تنازعہ ہوتا ہے، اور اکثر یہ تنازعہ طلاق کی طرف لے جاتا ہے۔
- بہکانا، دھوکہ دینا، بلیک میل کرنا اور ہراساں کرنا: یہ اس کے ساتھیوں، پروفیسروں یا اعلیٰ عہدے داروں کے قول و فعل سے ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ خوبصورت ہے، اور اس کے گریڈ اور ترقیاں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔
- اسکینڈلز اور مسائل کا انتشار: جس شعبے میں میل میلاپ زیادہ ہوتا ہے اس ماحول میں اسکینڈل، کرپشن اور ہراسانی بہت ہوتی ہے۔
- شادی کرنے میں ہچکچاہٹ: کیونکہ اگر کوئی مرد شادی، نان و نفقہ اور گھر کی ذمہ داریوں کے بغیر اپنی جبلی خواہشات کو بجھانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ ہرگز شادی نہیں کرے گا، جیسا کہ مغربی معاشروں میں ہوتا ہے۔
تعلیمی قواعد و ضوابط:
مختلف شعبوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لئے تعلیمی ضوابط موجود ہیں، جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- چھوٹی عمر میں ہی لڑکی کو یہ واضح کرنا کہ وہ مخالف جنس کا ایک ہدف اور اس کی رغبت ہے اور اگر مخالف جنس میں خوف خدا نہ ہو اس وقت یہ خواہش جارحیت کی حد تک جاسکتی ہے۔ اس طرح یہ احساس اس کے وجود اور طرزعمل پر غالب آئے گا، اور وہ اپنی حفاظت کے لیے احتیاط اور صبر و ضبط کی طرف مائل ہوگی۔
- بلوغت سے پہلے جنس کی علیٰحدگی کے رجحان کو فروغ دینا، جہاں بلوغت سے پہلے ہر جنس میں اپنی جنس کے لیے دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے، گویا یہ بلوغت کے بعد مخالف جنسوں میں پیدا ہونے والی کشش سے پہلے ہی جنسوں کی علیٰحدگی کی قدرتی تیاری تھی۔
- عرب اور اسلامی میڈیا کی طرف سے مغربی عورت کو ماڈل بناکر پیش کرنے پر روک لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسلم معاشرے کے اخلاق کی مخالفت اور اس کے اسلامی احکام اور مستند عرب روایات کی توہین کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
- معاشرے کو بداخلاقی اور گناہوں سے محفوظ رکھنے کے لئے عوامی زندگی کے تمام شعبوں میں مخالف جنسوں کے درمیان میل ملاپ کے مواقع کو کم کرنا چاہیے۔
- اسکول کے نصاب میں حجاب کے اصول اور جنسی میل جول کے آداب کو شامل کرنا، لڑکیوں کو ان احکامات کی تربیت دینا اور انہیں اپنانے کی تاکید کرنا، تاکہ یہ ان کی اسلامی شخصیت کی تشکیل کا حصہ بن جائے۔
- دونوں جنسوں کو مختلف مشاغل کی مشقیں کراکے ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کرنا، ان کی توانائی کو ہیجان پیدا کرنے والی ایک دوسرے کی سوچوں سے بچانے کی کوشش کرنا۔
- عام حالات میں لڑکیوں اور عورتوں کو مردوں کے ساتھ میل جول کے ماحول میں سج دھج کر آنے کے خلاف متنبہ کرنا، کیونکہ یہ فتنے کو بھڑکاتا ہے، جس سے انہیں نقصان اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
- اگر کوئی عورت مردوں کے سامنے بات کرے تو اسے لگاوٹ سے بات نہیں کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “پس لگاوٹ سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں بیماری ہو وہ خواہش کرنے لگے اور سیدھی بات کیا کرو” [الاحزاب: 32]۔
- عورت کے چلنے کی چال وہی ہو جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے جس کا فرمان ہے: “انہیں چاہئے کہ پیروں کو زمین پر زور سے نہ ماریں تاکہ ان کی چھپائی ہوئی زینت ظاہر نہ ہو” [النور: 31]
- مرد کو عورت کے ساتھ خلوت میں محرم کے بغیر نہیں ملنا چاہیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ “خبردار کوئی مرد عورت سے اکیلے میں نہ ملے جو اس پر حلال نہ ہو، کیونکہ ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے” [احمد]۔
- دونوں فریق غضِ بصر کا عزم کریں: نہ ننگا جسم دیکھیں، نہ شہوت بھری نظروں سے دیکھیں، اور نہ بلا ضرورت گھورتے رہیں۔
جنسین کے درمیان میل ملاپ بداخلاقی اور جرم زنا کے ارتکاب میں سہولت پیدا کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے، کیونکہ یہ نفس میں برائی کے جذبات کو ہوا دیتا ہے، بے لگام خواہشات کی آگ کو بھڑکاتا ہے، فتنہ اور لالچ پیدا کرتا ہے، اور امت کے نوجوانوں کو اعلیٰ اخلاقی فضائل کے حصول میں رکاوٹ ڈالتا ہے، ان کی قوتوں کے زوال کا باعث بنتا ہے، اور انہیں سفلی خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
مآخذ و حوالہ جات:
- ابراہیم ثقیل: اختلاط کے مفاسد
- عبداللہ عواضی: اختلاط اور عفت کا خطرہ
- ماجد بن محمد جہنی: اختلاط، ایک سم قاتل
- ابن قیم: حکیمانہ طریقے1/407
- ویب سائٹ، اسلام کا طریقہ: اختلاط کے خطرات
مترجم: سجاد الحق