بقلم: مخلص برزق
مترجم: سجاد الحق
وہ بچوں کو قرآن پڑھانے والے استاد تھے، جن کی عمر آٹھ سال سے زیادہ نہیں تھی، اور وہ عصر کی نماز کے بعد دوپہر کے وقت پڑھاتے تھے۔ وہ خود ان بچوں سے صرف دس سال بڑے تھے۔ میں نے اپنے بچوں کو یہ امید باندھ کر ان کے حوالے کیا کہ وہ ان کے دلوں میں اللہ کی کتاب کی محبت بٹھا دیں گے اور اسے حفظ کرنے کی راہ دکھائیں گے۔ میں انہیں بہت عزت دیتا تھا اور ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتا تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ کام سب سے عظیم اور قابلِ احترام ہے۔ آخرکار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کو خیر کا علم عطا کیا ہے۔
میں نے اپنے بچوں کی اسکول کی پڑھائی پر کبھی اتنا دھیان نہیں دیا جتنا دھیان ان کے حفظ قرآن کے مرکز پر رکھا۔ شاید یہ اس خواہش کی وجہ سے تھا کہ کسی دن میں اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو— یا سب کو اللہ کا کلام حفظ کرتے دیکھوں اور "تاج پہناؤں”۔ لیکن جو ہوا، اس نے میرا یہ خواب چکنا چور کر دیا اور اُس نوجوان استاد پر میرا اعتماد ٹوٹ گیا جسے میں نے اتنی مقدس ذمہ داری سونپی تھی۔
ایک دن کچھ شرارتی بچوں کی شرارت اور باتوں پر غصے میں آ کر اس استاد نے سب بچوں کو ذلت آمیز طریقے سے ایک جیسی سزا دی، اس نے اس بات کا امتیاز نہیں کیا کہ کون گنہگار تھا اور کون بے قصور۔
میرا بیٹا اس دن گھر واپس آیا تو اس کا دل شکستہ تھا، اس کی روح زخمی تھی۔ یہ واقعہ اس کے دل پر ایک گہرا نشان چھوڑ گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی کسی کے ساتھ اتنی سیدھی اور سخت بات کی ہو جتنی میں نے اس استاد کے سامنے کی تھی۔ میں نے اسے اس لاپرواہی پر ڈرایا، اللہ سے ڈرنے کی یاد دہانی کرائی۔ میرے الفاظ کچھ یوں تھے: "سب سے بڑا کام جو کوئی شخص کر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کے دلوں میں، جو ابھی صحیح اور غلط سے ناواقف ہیں — اللہ کے کلام کی محبت پیدا کرے، اور اسے یاد کرنے اور اس کے معانی پر غور کرنے میں ان کی مدد کرے۔ مگر یہ مقدس کام بدترین عمل میں بدل سکتا ہے اگر غلط طریقے سے کیا جائے، جو بچوں کو اللہ کی کتاب اور اس کے گھروں سے دور کر سکتا ہے…”
بےشک، جتنی ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے بچوں کے ساتھ احسان کرنے والوں کو جزا دے، اس سے زیادہ اُن لوگوں کو معاف کرنا مشکل ہوگا جو اس کے برعکس کام کرتے ہیں۔
اس کے بعد، مجھے یاد نہیں کہ کسی طالب علم نے کبھی اُس نوجوان کے بارے میں کوئی شکایت کی ہو۔ اللہ اسے بھرپور اجر دے۔ اُس نے ان کی شرارتوں کے باوجود نرمی، مہربانی، اور صبر کے ساتھ اُنہیں راہنمائی دی۔
اگر میں بھول بھی جاؤں، تو اُس کے اُن الفاظ کو کبھی نہیں بھولوں گا جو اُس نے میرے بیٹے کو سالوں بعد ہمارے ملک چھوڑنے اور اُس واقعے کو ایک دہائی گذرنے کے بعد بتائے۔ اُس نے اعتراف کیا کہ میرے الفاظ نے اُس کے اندر ہلچل مچا دی ایک گہرا اثر ڈالا تھا، جس نے اُس کی زندگی کے انداز کو مکمل طور پر بدل دیا۔
میں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس کی حمد بیان کی اور قیادت و احتساب کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بلند حکمت کی یاد تازہ ہوئی جو ایک جامع حدیث میں سموئی گئی ہے۔ یہ حدیث ہر رہنما، حکمران، مربی، معلم، یا سرپرست کو اس بات سے خبردار کرتی ہے کہ وہ بے قصور اور مجرم، خطاکار اور نیکوکار، قصوروار اور بےگناہ کے درمیان تمیز کیے بغیر اجتماعی سزائیں نہ دیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک نبی (جن کا تعلق پہلے انبیاء میں سے تھا) ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ ایک چیونٹی نے انہیں کاٹ لیا۔ انہوں نے درخت کے نیچے سے اپنا سامان ہٹانے کا حکم دیا اور چیونٹیوں کے بل میں آگ لگا دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی: ‘ایک چیونٹی (کے فعل) کی پاداش میں پوری جماعت کو کیوں تباہ کیا؟ ” [بخاری و مسلم]۔
مسلم کی ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی فرمائی: ” کیا ایک چیونٹی کے کاٹنے پر تم نے اس جماعت کو جلایا جو میری تسبیح کرتی تھی؟ "
بے شک اللہ تعالیٰ نے اس نبی کے ساتھ کوئی جانب داری نہیں کی، حالانکہ وہ اپنے رب کے نزدیک بلند مقام اور اعلیٰ رتبے پرفائز تھے۔ بلکہ اللہ نے انہیں ایک ایسے عمل پر سرزنش اور تنبیہ کے ذریعے تربیت دی جو ایک ایسی مخلوق کے خلاف تھا جس کے حقوق کی حفاظت یا اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا عام لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ کون سا مذہب، قوم یا تہذیب ایسی ہے جس نے چیونٹیوں کو ایسی قدر و منزلت دی ہو کہ انہیں اللہ کی نظر میں مقدس روحوں والی مخلوق قرار دیا ہو؟
اس نبی کو اس بات پر تنبیہ نہیں کی گئی کہ انہوں نے نیک لوگوں کو بدکاروں کے جرائم اور محسنین کو ظالموں کے گناہوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حالانکہ یہاں موردِ الزام محض ایک چیونٹی تھی جس نے اپنی بادشاہت کے قریب لیٹے ہوئے کسی فرد یا اپنی قوم کے مسکنوں پر موجود کسی شخص کے خلاف اپنے جبڑوں کی طاقت آزمائی تھی۔ یہ عمل تمام انسانی اصولوں اور الہٰی قوانین کے مطابق جائز ہے، کیونکہ ہر فرد کو اپنے گھر، زمین اور اہلِ خانہ کو بیرونی جارحیت سے بچانے کا حق حاصل ہے۔
الہٰی فیصلے نے دوٹوک انداز میں اعلان کیا: ” تم نے اس کمزور مخلوق کے ساتھ سلوک میں غلطی کی، جس کی ظاہری شکل شاید اس بات کو ظاہر نہ کرتی ہو کہ یہ ایک عبادت گزار مخلوق ہے جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور اس کائنات میں اس پر عائد کردہ فرائض کو پورا کرتی ہے۔”
اس حدیث میں پوشیدہ تعلیمی درس کتنا گہرا ہے! یہ ایک اخلاقی روشنی ہے جو مومن کے کردار کو بلند ترین سطح پر پہنچاتی ہے، اس کے اندر ذمہ داری کا احساس اور باطنی ہشیاری بیدار کرتی ہے۔ جو شخص ناحق ایک چیونٹی کے مارنے سے بھی پرہیز کرنے کی تربیت پا لے، وہ کبھی بھی حرام خون بہانے، لوگوں کا مال ناجائز طور پر ہڑپ کرنے، یا زمین پر فساد اور تباہی پھیلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
یہی اس حدیث کا بنیادی پیغام ہے جو بلا وجہ چیونٹیوں کے قتل سے منع کرتی ہے۔ پھر کوئی شخص اپنے آپ کو معصوم خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے— خواہ وہ کوئی ظالم حکمران ہو جو اپنی طاقت اور اختیار میں مغرور، اپنی فوج اور سپاہیوں کی قوت سے فریب کھا رہا ہو، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی طرف سے ملنے والی مہلت اور تحمل سے دھوکہ کھا رہا ہو؟
کچھ گروہ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلامی نعروں کو اٹھایا اور تشدد کو اپنا طریقہ کار بنایا، دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے کا واحد ذریعہ خونریزی کو قرار دیا۔ انہوں نے خود کو فاسد مذہبی فتاوی اور غلط تفسیروں میں لپیٹ لیا، لوگوں کو مرتد، گنہگار قرار دے کر ان کا خون حلال ٹھہرایا، اور انسانی جان کی حرمت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ گویا کہ انسان کی روح کوئی اہمیت نہیں رکھتی، جب کہ ایک چیونٹی کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو تنبیہ فرمائی تھی۔ گویا یہ گروہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح رہنمائی کو جو آپ کی تعلیمات اور سنتوں میں جھلکتی ہے، یکسر بھول چکے ہیں۔ انہی تعلیمات میں سے ایک یہ گہری اور پُر معنی حدیث بھی ہے جو الفاظ اور مفہوم دونوں اعتبار سے انتہائی جامع ہے۔
اس حدیث میں انسان کو ایسی الہٰی رہنمائی ملتی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے شریفانہ مقام کے مناسب رویہ کی طرف رجوع کراتی ہے یعنی ذاتی انتقام کے بجائے صبر اور درگزر سے کام لینا۔ جیسا کہ امام قرطبی نے وضاحت کی ہے، ایک چیونٹی کی غلطی کی پاداش میں چیونٹیوں کی پوری بستی کو تباہ نہ کرنے کی نصیحت کی گئی۔ ہمیں، دیگر تمام امتوں سے بڑھ کر انبیاء کے اخلاق کو اپنانا چاہیے جو معافی، برداشت اور ضبط کو فوقیت دیتے ہیں — ساتھ ہی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سنہری اصول کو اپناتے ہوئے: "میں فریب نہیں دیتا، اور نہ ہی فریب کار مجھے فریب دے سکتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں ہر شکل میں زندگی کی حفاظت کرنے اور کائنات میں اللہ کی مخلوق کا احترام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ہمیں کبھی بھی اپنے لیے وہ اجازتیں اختیار نہیں کرنی چاہئیں جو اللہ نے نہیں دی ہیں۔
اس شدید تنبیہ اور دھمکی پر غور کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوں کی قیمت کو ہلکا سمجھنے والوں کے خلاف بیان فرمائی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "ابن عمر رضی اللہ عنہما قریش کے کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک پرندے کو باندھ رکھا تھا اور تیروں کا نشانہ بنانے لگے۔ ہر خطا جانے والے تیر کی قیمت پرندے کے مالک کو ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جب انہوں نے ابن عمر کو دیکھا تو بھاگ گئے۔ آپ نے فرمایا: ‘یہ کس نے کیا؟ اللہ اس پر لعنت کرے جس نے یہ کیا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس شخص پر لعنت بھیجی جو کسی جاندار کو نشانہ بناتا ہے۔ ” [صحیح مسلم]
کیا ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ وہ نزاکت برتتے ہیں جس کا حکم ہمیں چیونٹیوں اور دیگر مخلوقات کے ساتھ سلوک کرنے میں دیا گیا ہے؟ کتنے ہیں جو جانوں کے تقدس کو ہلکا تصور کرنے والے الفاظ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں؟ کتنے ہیں جنہوں نے اس دین کے ساتھ ناانصافی کی اور اس سے وہ بات منسوب کی جو اس کا حصہ نہیں ہے؟
اس گفتگو سے ہمارے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کا مقام اور اس کی نظر میں تسبیح کرنے والے کی عظمت کیا ہے خواہ وہ محض ایک چیونٹی ہی کیوں نہ ہو۔ تو ہم اللہ کے ذکر اور اس کی مستقل تسبیح سے کیسے غافل ہو سکتے ہیں، جب کہ کائنات کی ہر چیز اس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے؟ ہم اس کی مخلوقات میں سے کسی کو کیوں حقیر سمجھیں، جو ہم سے بھی زیادہ اللہ کی عظمت، اس کی عبادت اور اطاعت میں مشغول ہو۔
ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں، چاہے وہ کبیرہ ہوں یا صغیرہ، جو ہم جانتے ہیں اور جو نہیں۔ وہ ہمیں انصاف اور صحیح فیصلہ عطا فرمائے، ظاہری اور پوشیدہ فتنوں سے محفوظ رکھے، حرام خون بہانے کے گڑھوں میں گرنے سے بچائے، اور ہمیں انبیاء و مرسلین کے اخلاق سے مزین کرے۔ وہ ہمیں اولین و آخرین کے سردار، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روز حشر اٹھائے۔ "