سید ابو الاعلىٰ مودودی ہندوستان کے ایسے ماحول میں پلے بڑھے جو بہت سارے متضاد نظریات سے بھرا ہوا تھا۔ البتہ سید مودودی نے اسلام کے صحیح تصورات کے ساتھ پرورش پائی، جو کہ موروثیت کی جامد تقلید کے اثرات سے پاک تھے اور نام نہاد مغربیت سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ اس پرورش میں ان کا تبحر علمی، شریعت اور اسلامی ورثے سے گہری واقفیت (ان کے) معاون ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ فلسفہ اور جدید افکار پر گہری نظر رکھنے کی وجہ سے وہ اصل بیماری کی جڑ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ سید مودودی رحمہ اللہ ایک ایسے ماحول میں نمودار ہوئے جس پر عقلیت پسند حنفی مسلک چھایا ہوا تھا اور ساتھ میں تصوف کا وہ تصور لیے ہوئے تھا جس پر مغربی افکار کی چھاپ تھی، جو کہ انگریزوں کا ہندوستان پر دوسو سالہ عرصہ پر محیط رہنے والے قبضے کا نتیجہ تھا۔ لیکن سید مودودی کی صحیح اسلامی تربیت کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ انہوں نے اسلام کی ایسی نئی اصلاحی تعلیمی اسکیم کی بنیاد ڈال دی جو نئے مردان کار تیار کرنے کا ذریعہ بنی۔
ابو الاعلیٰ مودودی: مختصر تعارف
ابوالاعلیٰ بن سید احمد المودودی 25 ستمبر 1903ء کو جنوبی ہندوستان کی ریاست حیدرآباد کے شہر اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب ایک ایسے عرب خاندان سے جا ملتا ہے جو جزیرہ نما عرب سے اسلامی فوجوں کے ساتھ آیا تھا۔ ان کے والد ایک پڑھے لکھے آدمی اور صوفی تھے، اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ پھر انہوں نے قرآن پاک، حدیث، عربی ادب، فلسفہ اور زبانوں میں اردو، عربی، فارسی اور انگریزی جیسی زبانیں سیکھنا شروع کیں۔ اس کے بعد رسمی تعلیم شروع کی یہاں تک کہ انہوں نے مولوی کا امتحان پاس کرلیا جو بیچلرزڈگری کے برابر ہے۔ 1920ءمیں انہوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا، کچھ عرصہ یہاں وہاں اخبارات میں کام کرتے رہے یہاں تک کہ دہلی سے شائع ہونے والے اخبار ’’تاج مسلم‘‘ کے چیف ایڈیٹر بن گئے، اور بالآخر جمعیت علماء اسلام ہند کے اخبار میں بحیثیت چیف ایڈیٹر کام کیا۔انہوں نے اپنی پہلی کتاب 1926ء میں ’’الجهاد في الاسلام‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔ پھر1930 ء میں کتاب ’’اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی‘‘ لکھی، جس میں انہوں نے اسلام کے احکام کو آسان طریقے سے بیان کیا ہے۔ 1932ء میں انہوں نے حیدر آباد سے ایک ماہانہ رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے جاری کیا جہاں سے ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ وہ 1938 ء میں علامہ محمد اقبال کے قرب وجوار میں رہنے کے لیے پنجاب چلے آئے۔
جب 1940ء میں ریاست پاکستان کے حوالے سے منصوبہ بندی ہورہی تھی، جس کے لیے مسلم علماء کا ایک گروپ تشکیل پایا، تو انہوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ 1941 ء میں مولانا نے اسلام کو پوری طرح سے اپنانے اور اسے تمام شعبوں میں لاگو کرنے کے لیے جماعت اسلامی تشکیل دی، تاکہ دین جذباتیت سے آگے بڑھ کرعملی صورت اختیار کرلے۔ اُن پر حکومت کی طرف سے کافی ظلم وستم کیا گیا، لیکن ان کی تحریک کی مقبولیت، ان کی کتابوں اور نظریات کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ وہ اور ان کے حامیوں کو 28 مارچ 1953ء کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی سال 11 مئی کو فوجی عدالت نے ان کے خلاف سزائے موت کا حکم سنایا، جس سے پاکستان کے اندر اور باہر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا۔ قبل اس کے کہ حالات مزید بگڑتے، ان کی سزا میں تخفیف کی گئی اور دو سال بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ اُن کے اور حکومت (خاص طور پر فوج) کے درمیان معاملات کبھی بہترنہیں ہوئے، جس کی وجہ سے فوجی حکومت نے جنوری 1964 ء میں جماعت اسلامی کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی۔ لیکن وہ اسلامی فکر کے ایک قدآور عالم اور مقبول شخصیت بنے رہے اور ان کا اثر بہت سے ممالک تک پھیل گیا۔ ان کی تحریریں اور افکار لوگوں میں پھیلتے گئے، اور وہ اپنے دین کے لیے ایک مجاہد اور کارکن کی طرح جدوجہد کرتے رہے، یہاں تک کہ 22 ستمبر 1979ء کو نیویارک میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، جہاں وہ اپنے بیٹے احمد فاروق کے ہاں علاج کے لئے رکے ہوئے تھے۔
وہ عوامل جنہوں نے مودودی کو اصلاح کے مشن كا اہل بنایا
ابو الاعلیٰ مودودی کو اصلاح امت کے مشن کے لیے اہل بنانے میں بہت سارے عوامل شامل تھے، جن میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:
- بچپن سے ہی خود انحصاری: اپنے والد صاحب کے مفلوج ہونے کے بعد وہ روزی روٹی فراہم کرنے کے لیے بازارِ عمل میں داخل ہوئے، جس نے انہیں ذمہ داری اٹھانے کی تربیت دی۔ پس اس کا واحد راستہ قلم ہی تھا۔
- انتھک محنت: زندگی کی تنگنائیوں اور تلاشِ معاش کی سختیوں کے باوجود ابو الاعلیٰ نے انگریزی زبان سیکھنے کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ اس پر عبور حاصل کرلیا اور اب وہ انگریزی میں تاریخ، فلسفہ، سماجیات اور تقابل مذاہب کی کتابیں بغیر دشواری کے پڑھ اور سمجھ سکتے تھے۔
- ان کی فکری نشوونما اس دور میں ہوئی جب ہندوستان میں مسلمان زبوں حالی کے شکار تھے اور تبدیلیوں کے تھپیڑے کھا رہے تھے۔ ان کے خیالات نے معاشرے پر چھائی ہوئی انتہائی مایوسی کا اثر لے لیا، چنانچہ وہ اس بحران سے نکلنے کے لیے حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
- ملت اسلامیہ کے متعدد عظیم علماء اور مفکرین سے ان کا فکری اور جذباتی تعلق:ان میں سےشاعر اسلام محمد اقبال اور سید قطب شہید بھی ہیں، جن کے ساتھ ان کی قلبی اور فکری وابستگی تھی۔
امت کی بیماری کی تشخیص
جب ابو الاعلیٰ مودودی نے قوم کی حالت پر نظر دوڑائی تو اسے جمود میں گرا ہوا پایا جس نے اسے جہالت اور پسماندگی کا شکار بنادیا تھا۔ اس بات نے ان کو مجبور کیا کہ ایسے رجحان کی تنقید کریں جس نے مسلمانوں کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت معطل کردی تھی، اور اب تک اپنے اسلاف کے پیش کردہ نظریات اور تصورات کی خوشہ چینی پر مطمئن تھے۔ وہ نظریات جو ایک وقتی سیاق و سباق سے متعلق تھے اور عصر حاضر سے میل نہیں کھاتے تھے۔ اس لیے سید مودودی نے ان تمام مسائل پر توجہ دی جو مسلمان قوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہیں، وہ چاہے فرد کی زندگی ہو، خاندان کی زندگی، معاشرے کی زندگی، قوم کی زندگی، ریاست کی زندگی یا پوری دنیا کے ساتھ تعلقات ہوں اور ان سب کا مختلف پہلوؤں کے ساتھ حل پیش کیا۔
ابو الاعلیٰ کو واضح طور پر اس بات کا احساس تھا کہ مسلم قوم کے لیے ’’جمود اور رہبانیت‘‘ کا خطرہ، سیاسی غلامی اور تہذیبی پسماندگی کے خطرے سے کچھ کم نہیں۔ وہ اس بات سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے کہ بحیثیت امت جو کچھ کمزوری اور تہذیبی تنزل ہمیں درپیش ہے اس کی اصل وجہ ہمارا دینی، اخلاقی اور فکری انحطاط ہے۔ اس طریقے سے انہوں نے اس مرض کی نشاندہی کی جس نے امت کو جکڑ لیا تھا، پھر اس کا مناسب علاج تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہوئے، وہ علاج جو اسلامی شریعت سے ہم آہنگ ہو۔ وہ صرف اس بیماری کی تفصیل بیان کرنے پر اکتفا نہیں کرتے ہیں، بلکہ ان کو لگتا ہے کہ مغربیت اور ثقافتی یلغار کی لہر، قوم کی تباہی اور پسماندگی کے اسباب میں ایک قوی عنصر ہے، بالکل اسی طرح جس طرح جمود اور رہبانیت ایک عنصر ہے۔ اس بیماری کی تشخیص جو قوم کو لگ چکی تھی، اُس مؤثر دوا تک پہنچنے کا ایک طریقہ تھا جسے زندگی کا امرت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے ابو الاعلیٰ نے علم، جدت، تعقل اور غور و فکر سے کام لیا۔ اور اس جدیدیت کو اپنانے پر زور دیا جو مسلمانوں کو شناخت اور ترقی کی ضمانت دیتی ہو۔
ان کا خیال تھا کہ کسی بھی زمانے میں دین کو نئے سرے سے زندہ کرنے کے لیے محض دینی علوم کا احیاء کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ایک جامع اور ہمہ گیر تحریک اٹھانے کی ضرورت ہے، جس کے اثر میں تمام علوم و فنون شامل ہوں۔ ابو الاعلیٰ نے تجدید کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ اصولوں کو خس ونجس سے پاک کرکے اس انداز میں دوبارہ پیش کیا جائے جو نئی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو، لیکن اس میں اسلامی نقطہ نظر واضح اور نمایاں ہو۔
تجدید کا طریقہ کار:
- اپنے ماحول کی صحیح تشخیص کرنا جس میں مجدد رہتا ہو، یعنی مرض کا پورا جائزہ لینا کہ کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔
- اصلاح تجویز کرنا یعنی تعّین کرنا کہ فساد کس جگہ ہے جس کا علاج ضروری ہے۔
- خود اپنے حدود کا تعّین یعنی اپنے آپ کو تول کر صحیح اندازہ لگانا کہ میں کتنی طاقت رکھتا ہوں اور کس راستہ سے اصلاح کرنے پر قادر ہوں۔
- ذہنی انقلاب کی کوشش کرنا یعنی لوگوں کے خیالات کو بدلنا، عقائد وافکار اور اخلاقی نقطہ نظر کو اسلام کے سانچے میں ڈالنا، نظامِ تعلیم و تربیت کی اصلاح اور علوم اسلامی کا احیاء کرنا اور فی الجملہ اسلامی ذہنیت کو ازسرِ نو تازہ کردینا۔
- عملی اصلاح کی کوشش کرنا یعنی جاہلی رسوم کو مٹانا، اخلاق کا تزکیہ کرنا، اتباع شریعت کے جوش سے پھر لوگوں کو سرشار کردینا اور ایسے افراد تیار کرنا جو اسلامی طرز کے لیڈر بن سکیں۔
- اجتہاد فی الدین یعنی دین کے اصول کلیہ کو سمجھنا، اپنے وقت کے تمدنی حالات اور ارتقائے تمدن کی سمت کا اسلامی نقطہ نظر سے صحیح اندازہ لگانا اور یہ تعّین کرنا کہ أصول شرع کے ماتحت تمدن کے پرانے متوارث نقشے میں کس طرح ردّو بدل کیا جائے، جس سے شریعت کی روح برقرار رہے۔
- دفاعی جدوجہد یعنی اسلام کو مٹانے اور دبانے والی سیاسی قوت کا مقابلہ کرنا اور اس کے زور کو توڑ کر اسلام کے لیے ابھرنے کا راستہ پیدا کرنا۔
- احیائے نظام اسلامی یعنی جاہلیت کے ہاتھ سے اقتدار کی کنجیاں چھین لینا اور ازسرنو حکومت کو عملاً اس نظام پر قائم کردینا جسے صاحبِ شریعت علیہ السلام نے خلافت علیٰ مہاج النبوة کے نام سے موسوم کیا ہے۔
- عالمگیر انقلاب کی کوشش یعنی صرف ایک ملک یا ان ملکوں میں جہاں مسلمان پہلے سے موجود ہوں، اسلامی نظام کے قیام پر اکتفا نہ کرنا، بلکہ ایک ایسی طاقت ور عالمگیر تحریک برپا کرنا جس سے اسلام کی انقلابی واصلاحی دعوت عام انسانوں میں پھیل جائے، اور وہی تمام دنیا کی غالب تہذیب بنے۔
سید مودودی کی فکر اس لحاظ سے ممتاز تھی کہ اس میں تحرّک تھا۔ اس فکری پیغام کے علاوہ ان کے پاس ایک عملی پیغام بھی تھا، یعنی اس فکر کو ایک مثبت، تعمیری تحریک میں تبدیل کرنا۔ انہوں نے کتابیں اور رسالے لکھنے کے بعد ’’مردان کار‘‘ تیار کیے۔ اس معاملے میں وہ شیخ حسن البنا کے ہم خیال ٹھہرے، جنہوں نے کتابیں تصنیف کرنے کے بجائے چلتے پھرتے انسان تصنیف کرنا مقدم رکھا۔
مسئلہ تعلیم:
تعلیم کا مسئلہ ایک پیچیدہ ترین مسئلہ ہے اور اس کا قوم کی ترقی اور زوال سے گہرا تعلق ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ حق کے کتنے قریب ہے یا کتنی دور ہو، چونکہ یہ بظاہر شاندار اور دلکش ہے، اس لیے بہت کم لوگ اسے سمجھتے ہیں۔ یہی بات ابو الاعلیٰ مودودی کو اس کی اہمیت کا إحساس دلاتی ہے جو اس طرح سے ہے:
- ’’تعلیم وتربیت کے لیے نیا اسلامی نقطہ نظر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، جس میں اسلامی تعلیمی إصلاحات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کیا اور وہ بنیادی فکر اور بہت سارے تعارفی مضامین شامل کیے جن پر مسلمانوں کی کامیابی اور بقا کا انحصار ہے۔
- ابو الاعلیٰ نے تعلیم وتربیت اور ثقافت کو پاک کرنے، اچھے لوگوں کو چھانٹنے، اورانہیں ایک نظام تلے جمع کرنے اور خواص میں سے قیادت نکالنے لیے ان کی تربیت کرنے کا اہتمام کیا۔
- انہوں نے خود کو وعظ وارشاد تک محدود نہیں رکھا بلکہ دین ودنیا دونوں میں مکمل سماجی اصلاح کی کوشش کی ۔
- انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حکومت اور انتظامیہ میں إصلاحات کی کوشش کی، کیونکہ نظام حکومت کو بدلنا ہی زمین پر فساد کو روکنے کا طریقہ ہے۔
ماخذ اور حوالہ جات:
- ابوالاعلیٰ مودودی – وکیپیڈیا،
- ولی نصر: مودودی اور اسلامی تجدید کی صنعت، ترجمہ غدا بن عامرہ، جادوئیل فار پرنٹنگ، پبلشنگ اینڈ ڈسٹری بیوشن، بیروت، 2018۔ اور دیکھیے ابو الاعلی مودودی۔ اسلامی دعوت کا سب سے بڑا
- إخليہن رجل: امام ابو الاعلی مودودی کا اصلاحی نظریہ،
- امام ابوالاعلیٰ مودودی کا تجدیدی وژن – ضرورت اور میکانزم: 19 جنوری 2019ء،
- ابو الاعلی مودودی، دین کی تجدید اور احیاء کی مختصر تاریخ، مسلمانوں کی حقیقت اور ترقی کا راستہ، دار الفکر، پہلا ایڈیشن، دمشق 1964ء، ص 54-56۔
حسن حنفی: معاصر مذہبی گروہوں پر ابو الاعلی مودودی کے اثرات، 16 اگست 2007ء،