اگرچہ مسلم سائنسدان ابن سینا طب اور فلسفہ میں اپنی ذہانت کی وجہ سے جانے جاتے تھے، لیکن وہ تعلیم و تربیت کے شعبے میں بھی بڑا تجربہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتابوں خاص کر کتابِ “سیاست” کے ذریعہ اس کے طریقہ کار کے اصول و ضوابط مقرر کیے، کیونکہ ان کی نظر میں تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کا ہدف انسانی شخصیت کے تمام پہلوؤں جیسے ذہنی، جسمانی اور اخلاقی پہلو کی نشو و نما ہے۔ ان کے نزدیک یہ تربیت انسان کے بچپن میں شروع ہوکر اس کی ساری زندگی جاری و ساری رہنی چاہیے۔
اس مسلم اسکالر نے تعلیم و تربیت کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے اصولوں کا ایک مجموعہ وضع کیا ہے، جن میں انسانی نفس کی معرفت کا اہتمام، انسانوں کی انفرادی خصوصیات کی رعایت، اخلاقی پہلو پر توجہ، عمر کے ابتدائی مراحل، اسکول اور سن بلوغت میں بچوں کی تربیت شامل ہیں۔ انہوں نے اسلامی تعلیمی فکر پر بہت بڑا اثر ڈالا ہے، اور آپ کو مسلمانوں کی تعلیمی میراث میں ایک اہم مفکر سمجھا جاتا ہے۔

ابن سینا کون ہے؟
شیخ ابو علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا بخارا کے ایک گاؤں “افشنۃ” میں پیدا ہوئے، جو اب ازبکستان کے علاقے میں واقع ہے۔ آپ سال 370 ہجری (980 عیسوی) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے چھوٹے بھائی کی پیدائش کے بعد آپ کا خاندان بخارا شہر منتقل ہو گیا۔
آپ کے والد کا تعلق بلخ (افغانستان) سے تھا، پھر وہ بخارا چلا گیا اور وہاں کے ایک گاؤں “خرمتین” میں کام شروع کیا۔ پھر شہر میں ٹیکس جمع کرنے والے محکمہ میں بحیثیت اکاؤنٹنٹ کام کیا، جہاں وہ 985 عیسوی (375 ہجری) میں اپنے خاندان کے ساتھ آباد ہوئے، اور اس وقت ابن سینا کی عمر پانچ سال تھی۔
ابن سینا کی پرورش ایک علمی خاندان میں ہوئی۔ آپ کے گھر میں مشہور علماء کی مجلسیں ہوتی تھیں اور امیر خراسان نوح بن منصور کے زمانے میں آپ کا گھر سامانی امراء کا سیاسی گھڑ تھا، لیکن اس کا ستارہ اس وقت ڈوب گیا جب 997 عیسوی (387 ہجری) میں امیر کی وفات ہوئی۔
ابو علی الحسین نے صرف دس سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور ادب کا وسیع مطالعہ کیا، جو آپ کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لیے باعث حیرت تھا اور آپ کی ذہانت اور انفرادیت کے لیے باعث ترغیب تھا۔ پھر انہیں والد صاحب نے محمود مساح نامی ایک دکاندار کے پاس حساب سیکھنے کے لیے بھیجا، جو ہندسوں کے حساب میں مہارت رکھتا تھا، پھر انہوں نے اسماعیل زاہد کے پاس فقہ کا درس پڑھنا شروع کیا، یہاں تک کہ بحث و اختلاف کی مجلسوں میں بھی شرکت کرنے لگے جہاں وہ فقہاء کے انداز میں بحث و مباحثہ کرتے تھے۔
اس دوران ابو عبد اللہ الحسین بن ابراہیم الناتلی بخارا آگئے جو فلسفہ پڑھانے والے ایک حکیم تھے۔ ابن سینا کے والد نے انہیں اپنے یہاں ٹھہرایا اور اپنے بیٹے کو فرفوریس کی کتاب “ایساغوجی” پڑھنے کے لئے ان کے پاس بھیج دیا، جوکہ ارسطو کی منطق کا تعارف ہے۔ اسی طرح انہوں نے علم ہندسہ میں اقلیدس کی کتاب العناصر بھی پڑھی اور فلکیات میں بطلیموس کی کتاب “المجسطی” ان کے پاس پڑھ لی۔
22 سال کی عمر میں وہ والد کے سایے سے محروم ہوئے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں خلل پڑا اور ان کے حالات بدل گئے۔ ان پر بخارا میں زندگی گذارنا مشکل ہوگیا اور وہ وہاں سے چلے گئے۔ بعد میں سیاسی حالات نے انہیں اپنا وطن چھوڑنے اور ایک ملک سے دوسرے ملک در در بھٹکنے پر مجبور کر دیا، اور کہیں انہیں اعزازات ملتے اور بعض اوقات تکلیف دہ زندگی بسر کرنی پڑتی، اور زندگی کے کچھ مراحل مریضوں کو فراہم کی جانے والی طبی خدمات کے بدلے حاصل ہونے والی اجرت کے ذریعے بسر کیے۔
ابن سینا نے 17 سال کی عمر میں اپنی علمی اور فکری کام کا آغاز کیا۔ جو تقریباََ 200 کتابوں پر مشتمل ہے- جہاں انہوں نے بہت سے شعبوں میں لکھا ہے۔ انہوں نے تعلیم اور اخلاقیات کے شعبوں میں جو نمایاں کتابیں لکھی ہیں ان میں درج ذیل شامل ہیں۔
کتاب علم سیاست
کتاب علم اخلاق
کتاب نفس ناطقہ کے متعلق بحث پر ایک رسالہ
کتاب رسالۂ عقل
کتاب نیکی اور بدی پر ایک رسالہ
کتاب شیخ ابی سعید بن ابی الخیر کے نام ایک خط
کتاب، اشارات اور تنبیہات
کتاب، حکمت کا سرچشمہ
کتاب، تزکیہ نفس
یہ متبحر عالم ماہ رمضان کے پہلے جمعہ 428 ھ (1037ء ) کو 58 سال کی عمر میں فوت ہوا اور ابن الاثیر نے اپنی عظیم تاریخ میں بتایا ہے کہ ان کا انتقال اصفہان میں ہوا، جب کہ زیادہ تر مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے امیر کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہمدان (ایران) میں فوت ہوئے اور وہی دفن ہوئے، اور بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ وہ جیل میں فوت ہوئے۔

تعلیم کے بارے میں ابن سینا کے خیالات
ابن سینا نے عربی اور فارسی میں لکھی ہوئی اپنی بہت سی کتابوں میں اپنے تعلیمی نظریات بیان کیے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر آراء کتابِ “سیاست” میں پائی جاتی ہیں، اور ان میں اہم ترین یہ ہیں:
- تعلیم صرف بچے کے اسکول میں داخلہ کروانے کے مرحلے تک محدود نہیں ہے بلکہ بچے کی تربیت اس کی پیدائش کے لمحے سے لے کر اس کی شادی اور معاشرتی زندگی میں اس کی شمولیت تک حاوی ہے۔
- تعلیم انسانی شخصیت کے ایک پہلو یا کچھ پہلوؤں پر مرکوز نہیں ہے کہ دوسرے پہلو نظر انداز ہوجائیں بلکہ اس کا ہدف انسانی شخصیت کی وحدت اور اس کے ذہنی، جسمانی اور جذباتی پہلوؤں کی مجموعی تکمیل ہے۔
- تعلیم کی بنیاد دین اسلام کی تعلیمات بالخصوص قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہونی چاہیے۔
- تعلیم کا آغاز بچے کی پیدائش کے وقت بہترین نام کے انتخاب سے ہوتا ہے کیونکہ بچے کے نام سے اس کی شخصیت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی دودھ پلانے کے انتظام پر توجہ دینا ضروری ہے۔
- پری اسکول جو ایک ذہنی مرحلہ ہوتا ہے جس میں والدین بچے کی مستقبل کی شخصیت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس اعتبار سے کہ اس مرحلے پر بچہ تمام عادات، بری یا اچھی یکساں طور پر حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
- جسمانی تربیت ضروری ہے اور یہ کسی خاص مرحلے یا عمر کے لئے مخصوص نہیں ہے۔
- چھ سال کی عمر ایک بچے کے لئے تعلیم شروع کرنے کی صحیح عمر ہے۔
- قرآن، عربی زبان اور دینی علوم کی تعلیم کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے: وہ لازم العمل تدریسی منھج کے بارے میں کہتے ہیں: “جب بچے کے جوڑ مضبوط ہوجائیں، اس کی زبان درست ہوجائے، وہ تعلیم کے لئے تیار ہوجائے، اور سننے کے لیے متوجہ ہوجائے، تب وہ قرآن اور حروف تہجی کی شکلیں سیکھ سکتا ہے، اور دین کے مبادی پڑھ سکتا ہے۔
- تعلیم میں انفرادی خصوصیات کی رعایت: ابن سینا نے طالب علموں کے درمیان انفرادی خصوصیات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، آپ نے گروپ لرننگ کی حمایت کی ہے۔ اور آپ طالب علموں کو ان کے رجحانات اور صلاحیتوں کے مطابق گائیڈ کرنے پر زور دیتے ہیں۔
- مادی انعامات کے بجائے اخلاقی انعامات اور سزا کے اصولوں کی اہمیت: کیونکہ آپ کا ماننا ہے کہ طالب علم کی فطرت اور اس کے کام کو مدنظر رکھا جانا چاہئے، اور سزا کی ترتیب پہلے چھوڑنا، پھر تنبیہ اور بعد میں ڈانٹ ڈپٹ، سزا دینے کا مطلب سدھارنا اور صحیح راستہ دکھانا ہے۔ اور نرمی سے بدلنا ہے۔ سزا دینے کے پیچھے کوئی ذاتی انتقام یا نفرت نہیں ہے بلکہ اچھی تربیت کرنے کا جذبہ ہے۔
- وہ استاد کی خوبیوں کے بارے میں کہتے ہیں: کہ ایک استاد اخلاق سکھانے میں بصیرت مند ہونا چاہیے اور بچوں کے انتخاب میں ہوشیار ہونا چاہیے۔ بچپن اور بلوغت کے مرحلے میں ایک ہی چیز کو سکھانے میں ماہر ہونا چاہیے۔ باوقار اور پرسکون ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کا براہ راست اثر طلباء پر پڑتا ہے، اور جب وہ یہ چیز اپنائے گا تو یہ پہلی چیز ہوگی جو اس کے کردار میں جڑ پکڑے گی۔
- ان کا ماننا ہے کہ اخلاقی تعلیم کی کچھ شرائط ہیں جن کا پورا ہونا ضروری ہے، یعنی: “سچائی اور عدل کی محبت، پاکیزگی، اطمینان، سخاوت، ہمت، صبر، بردباری، رازداری، علم، بیان، فہم، رحم، ثابت قدمی، عاجزی، نیکی، روح کو مادے کی آلائشوں اور حسن کی فریبوں سے پاک کرنا، اور یہ کہ فرد کا فہم اور خیالات بہترین ہوں، وہ سچائی اور سچے لوگوں اور انصاف اور انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہو۔
- تعلیم کے بارے میں ان کے دوسرے خیالات یہ ہیں، کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اور وہ اپنے نفسیاتی اور اخلاقی خصوصیات معاشرے کے مختلف ثقافتی عناصر کے زیر اثر حاصل کرتا ہے، اس طرح یہ شخص ماحول اور اس کے تعلیمی نظام کے مطابق بنتا اور تبدیل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ” تمام اخلاقیات – خوبصورت ہوں یا بدصورت کسبی ہیں، ”پھر فرماتے ہیں: “اگر ہم شروع سے ہی خوبصورت اخلاق رکھنے والوں کے اعمال کے عادی ہو جائیں تو ہم خوبصورت اخلاق کے عادی بن جاتے ہیں اور اگر ہم پہلے سے ہی برے اخلاق والوں جیسے اعمال کرنے لگ جائیں تو ہم برے اخلاق کے عادی ہو جاتے ہیں۔”
- گروپ میں سیکھنا اہم ہے کیونکہ یہ طالب علم کی شخصیت کو نکھارنے میں بہت اثر رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: “لازمی ہے کہ بچے کو اچھے اخلاق اور اچھی عادات والے بچوں کی صحبت مل جائے، بچے کا دوسرے بچوں کے ساتھ ہونا اسے ہم آہنگی، نفرت اور مخالفت جیسے تجربات سے گذارتا ہے، اور یہ سب چیزیں ان کے لیے بحث و مباحثہ، مقابلہ، عادتوں کا میل جول، نفس کا تزکیہ، حوصلہ افزائی اور دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔”
- طالب علموں کو ان کی صلاحیتوں اور رجحانات کے مطابق رہنمائی کرنا، جہاں وہ کہتے ہیں: “استاد کی ذمہ داری ہے کہ شاگرد کے لیے کوئی کام تلاش کرے اسے پڑھنے پر مجبور نہ کرے اگر وہ علم کی طرف مائل نہ ہو اور اسے خواہشات کے ساتھ چلنے نہ دے۔”
- معذوروں کے لئے تعلیم: جہاں انہوں نے معاشرے کے بارے میں اپنے جامع وژن اور اپنی دور اندیش حقیقت پسندی کے ساتھ اس گروہ کو تعلیم دینے کی ضرورت محسوس کی جو کوئی صنعت سیکھنے سے قاصر ہے، تاکہ یہ لوگ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکیں، اور دوسروں پر منحصر نہ رہیں اور دنیا میں عزت کی زندگی گذار سکیں۔
- تعلیم کا مقصد انسان کی تعمیر کرنا اور اسے قدرت کی قوتوں پر قابو پانے کی صلاحیت عطا کرنا ہے، تاکہ وہ ان قوتوں کو اپنی زندگی کی بہتری میں استعمال کرنے کے قابل بن سکے۔ اس کے ساتھ اس کی شخصیت کے تمام پہلوؤں میں مکمل ترقی ہو، اور ان سے فائدہ اٹھاسکے۔ اور وہ ساری مہارتیں اور کام سیکھ کر اپنی اور اپنے معاشرے کی ترقی ممکن بنائے۔
ابن سینا نے دینی اصولوں، اپنے دور کے وسائل اور اجتماعی حالات کو مدنظر رکھ کر ایک ایسا تعلیمی نصاب وضع کیا ہے جو ایک معاشرے کے تقاضوں کو پورا کرنے، اس میں بیداری لانے اور اس کے اقدار کو زوال سے چھٹکارا دلانے میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک اجتماعی تعلیمی نظام ہے جس کے متعدد پہلو ہیں: انفرادی، معاشرتی، اخلاقی، دینی اور پیشہ ورانہ، اور یہی وہ چیز ہے جو اسے قابل توجہ اور قابل مطالعہ ماہرین تعلیم اور صاحب فکر گروہ میں شامل کرتی ہے، جس نے انسانیت کو ایک خاص فلسفہ اور طب فراہم کرنے کے بعد علم کا ایک لامحدود ذریعہ فراہم کیا ہے۔
مآخذ و حوالہ جات:
1 ۔ ابن سینا : عہد پر ایک مقالہ، ص 419
2۔ ڈاکٹر سید ھاشم رضا اور ڈاکٹر سید ھاشم عبد العزیز: ابن سینا اور تربیت و اخلاق پر اس کا نظریہ، ص 327
3۔ یوسف محمد : ابن سینا کی تعلیمی فکر
4 ۔ الجزیرہ ویب : زعیم صدر ابن سینا جو 16 برس کی عمر میں طب کا بہت مشہور نام بن گیا۔
5 ۔ ڈاکٹر محمود عبد اللطیف : ابن سینا کی تعلیمی فکر، ص 61
6 ۔ ڈاکٹر شمس الدین عبد الامیر : ابن سینا کا نظریۂ تعلیم، ص 141
مترجم: سجاد الحق