ابنِ خلدون کو دنیا علمِ سماجیات کے باوا آدم کے طور پر یاد کرتی ہے، جسے عرفِ عام میں عمرانیات بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک محقق اور صاحبِ مطالعہ شخص جب ان کے افکار کا گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ علمِ نفسیات اور نفسیاتی تربیت کے بھی بانی تھے۔ یا کم از کم ان کے بارے یہ بات متفق علیہ ہے کہ انہوں نے اس علم کو لے کر ان بینادی افکار اور تصورات کی بنیاد ڈالی جن پر جدید نفسیاتی یا عمرانی علوم کی عمارت کھڑی ہے۔ ان کا مشہورِ زمانہ “مقدمہ” اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ بہت سے تعلیمی و تربیتی افکار و تصورات کی گہری اور دانشورانہ سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔
بہت سے ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ اس انسائیکلوپیڈک اسکالر اور دانشور کی طرف سے تحریر کردہ “مقدمہ” میں ایسے بہت سارے تربیتی اور لسانی افکار و نظریات کی نشاندہی ہوتی ہے جو مغربی لسانی اور اطلاقی لسانی نظریات سے کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اس عظیم دانشور کے افکار کا یہی پہلو ہم یہاں اس مضمون میں پیش کر رہے ہیں۔
ابن خلدون کون تھے؟
ان کا اصل نام عبدالرحمٰن بن محمد بن الحسن بن جابر بن محمد بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن خلدون ہے۔ وہ 732 ہجری مطابق 1332ء میں رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو تیونس میں پیدا ہوئے، اور ان کا انتقال 808 ہجری مطابق 1406ء میں قاہرہ میں اس وقت ہوا جب ان کی عمر 76 سال تھی۔ اس پورے عرصے میں انہوں نے تعلیم و تحقیق، تحرک، جستجو اور تلاش سے بھر پور زندگی گزاری۔
کہا جا سکتا ہے کہ ابنِ خلدون اپنی پوری زندگی میں چار مختلف مراحل سے گزرے ہیں، جس میں ہر مرحلہ الگ نوعیت کی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں سے عبارت ہے:
پہلا مرحلہ: یہ مرحلہ ان کی طالب علمی، ذہنی و فکری نشونما اور حصولِ علم کیلئے ان کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ یہ عرصہ کم و بیش دس سال پر محیط ہے، یعنی پیدائش سے لے کر سنہ 751 ہجری تک، جو انہوں نے تیونس میں گزارا۔ اس دوران انہوں نے تقریباً پندرہ سال حفظِ قرآن و تجوید، اور کبار علماء سے مختلف علوم کی تحصیل میں گزارے۔
دوسرا مرحلہ: یہ مرحلہ ان کی مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں سے عبارت ہے، جو کہ 751 ہجری کے اواخر سے 776 ہجری تک ان پچیس سالوں پر محیط ہے جو انہوں نے مغربی ممالک اور بلادِ اندلس کے اَسفار میں گزارے۔ اس مرحلے کے دوران ان کا زیادہ تر وقت مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں میں گزرا۔
تیسرا مرحلہ: یہ وہ مرحلہ ہے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو تصنیف و تالیف تک محدود رکھا۔ جو کہ 776 ہجری کے اواخر سے 784 ہجری کے آخر تک پھیلا ہوا ہے، یہ تقریباً آٹھ سال کا عرصہ بنتا ہے، جس کا پہلا نصف حصہ انہوں نے قلعہ ابن سلامہ میں اور دوسرا نصف حصہ تیونس میں گزارا۔ یہ پورا عرصہ انہوں نے تصنیف و تالیف کیلئے وقت کر رکھا تھا۔
چوتھا مرحلہ: تدریسی فرائض کی انجام دہی کا مرحلہ۔ جو کہ تقریباً چوبیس سال پر محیط ہے۔ اس دوران ان کا بیشتر وقت اور محنت تدریسی سرگرمیوں اور عدالتی ملازمتوں میں گزرا۔
ابن خلدون کا تعلیمی و تربیتی منہج:
ابن خلدون نے تعلیمی و تربیتی طریقہ کار کی نگرانی کے لئے فقہاء کرام کے منہج سے ہٹ کر مختلف نقطہ نظر اپنایا جس نے “تعلیم کی صنعت” اور معاشرے کے ثقافتی اقدار کے درمیان جدلیاتی تعلق قائم کیا۔ اس طرح انہوں نے ایک ایسے تعلیمی و تربیتی منہج کی بنیاد ڈالی جس میں فرد کی مربوط شخصی تعمیر پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے، بالفاظِ دیگر جس میں فرد کی تعمیر کو مرکزیت حاصل ہے۔
ابن خلدون کی تعلیمی و تربیتی خدمات اسلامی تعلیمی فکر کی راہ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نیز یہ اسلام اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے تئیں لازوال اور اولین خدمات کا ایک بین ثبوت بھی ہے جو کہ مغرب کے ان بے بنیاد دعوؤں کی تردید کرتا ہے جس میں مغرب کو اوّلیت کا مزعومہ درجہ دیا جاتا ہے۔
ذیل میں ہم اس منہج اور طریقہ کار کے ان اہم ترین اصولوں کا جائزہ لیں گے جن کا تذکرہ اس عظیم مفکر و دانشور کے افکارمیں ہمیں جابجا ملتا ہے۔
عبدالرحمٰن ابن خلدون تعلیم کا دفاع ایک آزاد اور مستقل ادارے کے طور پر کرتے ہیں، یہ آزادی ایک انوکھا “ذہن” پیش کرتی ہے جو ” فن” کے اصولوں، مسائل اور قوانین سے واقف اور سیکھنے کے لیے بنیادی شرائط فراہم کرنے کے قابل ہو۔ اس طرح یہ عظیم مفکر مروجہ تعلیمی قابلیت کے اس معیار سے آگے نکل جاتا ہے جس کے مطابق علمی اور تحقیقی کام کو انجام دینے کے لیے بنیادی معیار کے طور پر ذہانت اور معلمین کے ساتھ بات چیت کے فن کو ہی اوّلیت حاصل تھی۔
جب وہ “ایک اچھے استاد” کی صفات گردانتے ہیں تو پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ “تعلیمی و تربیتی نفسیات” سے متعلقہ اصل معلومات کا خزانہ ان کے ہاتھ لگا ہے۔ اس لحاظ سے کہ وہ سیکھنے والے (متعلم) کی صلاحیتوں اور اس کے ذہنی رجحانات کو مدنظر رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ موزوں ترین فن کے انتخاب اور پھر اس حوالے سے محتاط رہنے پر زور دیتے ہیں۔ نیز ہر فن کو عمومیات سے شروع کرنے پر زور دیتے ہیں تاکہ اکتاہٹ اور اجنبیت سے بچا جائے۔ جو کہ اکثر اوقات کسی بھی فن میں مہارت حاصل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
مواد/معلومات اکٹھا کرنے یا رٹا لگانے کے بجائے ملکہ اور مہارت حاصل کرنے پر زور: تعلیم و تربیت کے حوالے سے سائنسی اور معروضی بنیادیں قائم کرنے میں اس عظیم ماہر سماجیات و نفسیات کا اہم رول ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے بیش قیمت آراء و افکار پیش کیے ہیں جو ان کے مقدمے کا مستقل حصہ ہیں۔ انہوں نے اس دور کے مروجہ تدریسی و تحقیقی طریقوں کا تنقیدی جائزہ لے کر اس کی خامیوں کو ظاہر کیا۔
ابن خلدون، جن کا خیال ہے کہ انسانی فکر کی سب سے اہم خصوصیت مستقل غور و فکر اور مفید ادراک کے حصول کی شدید خواہش ہے، “رٹا لگا کر ذہن میں معلومات کو بٹھانے” کے اس مروج طریقہ کو مسترد کرتے ہیں جس کے اساتذہ اور طلبہ عادی ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے طالب علم مکالمے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ محض یادداشت کے بل بوتے پر بحث کرتے ہیں جو انہیں تعلیم و تحقیق کے حقیقی فوائد سے بہرہ مند ہونے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے۔ اور پھر جب طالب علم فراغت حاصل کر لیتا ہے تو وہ اس وقت اپنے اندر علم کی شدید قلت محسوس کرتا ہے جب وہ کسی سے مکالمہ کرتا ہے، یا کسی کو پڑھا رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابنِ خلدون تعلیم کے ایک ایسے طریقہ کار کو اپنانے پر اصرار کرتے ہیں جو ایک طالب علم کے اندر ایسی صلاحیتیں پروان چڑھائے جو اس کے اندر صالحیت اور صلاحیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے کچھ کمانے کے لائق بھی بنائے۔
جہاں تک ملکے اور درک کا تعلق ہے، عبدالرحمٰن خلدون کے وژن کے مطابق، یہ وہ مہارت ہے جو انسان کسی علمی اور عملی معاملے میں حاصل کرلیتا ہے، کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جس کا کوئی ظاہری وجود ہوتا، بلکہ یہ حواس کے ذریعے محسوس کی جانے والی چیز ہے۔ اس کے وجود کا احساس تب ہوتا ہے جب کوئی حواس کے ذریعے سے اس سے اکتساب فیض کرنے کی کوشش کرتا ہے اور فکر کی راہ پر اسے ترقی دیتا ہے۔
تعلیم و تربیت کے حصول میں تاثیر اور مہارت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک طالب علم کی ذہنی استعداد اور قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، تعلیمی پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔
ابن خلدون جسمانی سزا کو مسترد کرتے ہیں!
ابن خلدون جسمانی سزا کو رد کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جو تعلیمی میدان میں شدید تنازعہ کو جنم دیتا ہے۔ جو لوگ طلبہ پر سختی کی حمایت کرتے ہیں وہ تعلیمی عمل میں تادیب کے قائل ہیں جو عقلی طور پر ظلم اور سختی کو جائز مانتے ہیں اور تعلیم و تربیت کے سلسلے کو جبر و اکراہ سے کنٹرول کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔
جب کہ تادیب کے مخالفین اس کے نفسیاتی اور سماجی اثرات پر انحصار کرتے ہیں، اور اس کا متبادل تجویز کرتے ہیں جو ایک طالب علم کو رضاکارانہ طور پر تعلیمی راستے پر گامزن ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔
جہاں تک عبدالرحمٰن بن خلدون کا تعلق ہے، جو تعلیم کے ذریعے تہذیبی اٹھان پر یقین رکھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ جسمانی سزا اخلاقیات اور غلط رسوم و رواج کے پھیلاؤ کی ایک وجہ ہے، جو آنے والی نسلوں کی صحیح فکری اور اخلاقی نشوونما میں رکاوٹ بنتی ہے اور ان اقدار کو خطرے میں ڈالتی ہے جن پر انسانی ترقی کی بنیاد ہے، اور ان لوگوں کو پروان چڑھاتی ہے جن کی پرورش بدسلوکی اور جبر سے ہوئی ہو۔ یہ روح کی کشادگی کو تنگ کر دیتی ہے، اس کی حرکت کو کم کرتی ہے، اسے سستی کی طرف دعوت دیتی ہے، اسے جبر کے سائے میں پروان چڑھاتی ہے۔ جھوٹ بولنا اور بدتمیزی کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے۔ وہ تادیب سے بچنے کیلئے اپنے مافی الضمیر کے بجائے کسی اور چیز کا اظہار کرتا ہے جو اسے چالاکی اور دھوکہ دہی کی طرف لے جاتا ہے۔ جو پھر اس کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ اس سے انسانیت اور اس کے شرف کے جو معانی ہیں وہ خراب ہو جاتے ہیں اور انسان تہذیبی طور پر لاغر ہو جاتا ہے۔
ان کے تعلیمی و تربیتی افکار کی قیمت اور خصوصیات کا اندازہ اس طور سے لگایا جاسکتا ہے جب ہم نوجوانوں کو تعلیم و تربیت دینے کیلئے ان کے افکار کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ بالخصوص جب وہ ایک استاد اور طالب علم کے آداب اور شرائط پر بات کرتے ہیں کہ جن شرائط کا پورا کرنے دونوں کیلئے لازمی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سیکھنے اور سکھانے کا عمل فطری ہے۔ فرماتے ہیں کہ سیکھنے اور سکھانے کا عمل ہی انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے جو اسے باقی مخلوقات سے ممیز کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تعلیم و تعلم کا عمل تین بنیادی ستونوں پر مبنی ہے؛ یعنی استاد، طالب علم ، اور طریقہ کار۔ لہذا تعلیمی و تربیتی اہداف کا حصول صرف تب ہی ممکن ہے جب یہ تینوں شرائط پوری ہوں۔
ابن خلدون کے تعلیمی افکار صرف اسی ایک موضوع سے متعلق نہیں ہیں جس کا ہم نے ابھی تذکرہ کیا ہے، بلکہ وہ ایک ایسے تعلیمی و تربیتی نصاب تشکیل دینے کے قائل ہیں جس کا سماجی زندگی کے ساتھ براہ راست تعلق ہو اور جو لوگوں کو تعلیم کے محدود فقہی نقطہ نظر کے فریم ورک سے آزاد کر کے زندگی کے متعدد شعبوں کو شامل کرنے کی دعوت دیتا ہو۔
مصادر و مراجع
المسدي عبد السلام: التفكير اللساني في الحضارة العربية، ص 208-237
عبد الرحمن بن خلدون: المقدمة، 1/540
عبد الأمير شمس الدين: الفكر التربوي عند ابن خلدون وابن الأزرق، ص 79
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ