بقلمِ: امام حسن البنا شہید رحمہ
کون سا قلم ایسا ہے جو عظمت نبوی کے کسی پہلو کا وصف بیان کرسکے! اور کس صحیفہ میں اتنی وسعت ہے کہ اس عظمت کے طول وعرض کو اپنے اندر جگہ دے سکے، جس عظمت نے اپنے اندر ہر کشادگی شامل کی ہے، ہر زمانے کا احاطہ کر رکھا ہے اور جس کی ابدیت پر زمانے نے مہر تصدیق ثبت کی ہے، اور کسی مقالہ میں اتنی طاقت کہاں جو تمہارے لیے اس کے اسرار ورموز بے نقاب کرے، پھر چاہے اسے نور کی کرنوں سے کیوں نہ لکھ دیا گیا ہو یا سورج کی شعاعیں اس کی سیاہی کیوں نہ بنی ہوں! لیکن تمہیں یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ جس عظمت کے اوصاف لامحدود ہیں اور قلم، زبان اور عقل و فہم جس کا احاطہ کر نہیں سکتے، پھر بھی اس کی قدر ومنزلت ہر دل میں بس گئی ہے۔ ہر دور ونزدیک اسے محسوس کرتا ہے۔ ہر دوست ودشمن اس کا معترف ہے۔ ہر مسجد کے منبر سے اسی کی صدا بلند ہوتی ہے، اور میناروں کی روشنی سے اسی کی جلوہ گری ہے۔
"کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذکر کو کس طرح دوام عطا کیا ہے
جب مؤذن پانچ وقت کی اذان میں اس کی شہادت دیتا ہے
اور کس طرح اپنے نام سے اس کا نام نکال کر اسے تراشا ہے
عرش والا خود محمود ہے اور یہ محمد ہے”
عظمت کی دلیل:
عظیم اس لیے عظیم بنتا ہے کہ اس کے پاس تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہوتی ہے:
ایسی خداداد صلاحیتیں جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں، ان پر فوقیت بخشتی ہیں اور لوگوں میں خاص مقام عطا کرتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں آزاد ہوا کرتا ہے اور سر اٹھا کر چلتا ہے۔ عفو وکرم میں معروف ہوتا ہے اور خیر میں سبقت کرنے کی وجہ سے عظیم سمجھا جاتا ہے یا وہ ایسے بڑے کارنامے انجام دیتا ہے جو اس کی پہچان بن جاتے ہیں، اور لوگ اس طرح کے کام کرنے سے عاجز ہوتے ہیں یا ایسے راستے پر چلنے سے قاصر ہوتے ہیں یا وہ معاشرے کے لیے کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
بڑا آدمی جتنا زیادہ اپنے اوصاف میں کھرا اور عملاً جتنا مفید ہوگا اسی لحاظ سے اس کی عظمت کا درجہ بڑا ہوگا۔ اسی کے مطابق اسے قدر ومنزلت ملے گی۔ اسی لیے بڑے لوگوں کی عظمت میں فرق مراتب ہوتا ہے۔ ہر ایک کا مقام اور مرتبہ الگ الگ ہوتا ہے۔ کوئی ان میں بہت آگے ہے، جو عظمت کے مینار پر پہنچ گیا ہے، کوئی درمیانی درجے کا ہے جو اس مقام پر ہے جہاں سے عظمت کی حد نزدیک ہے اور کوئی ذرا کم تر درجے کا ہے جسے عظمت کی طرف نسبت ہے اور اس سے جڑا ہوا ہے یا عظمت اس سے جڑی ہے۔
"کبھی ہزار لوگوں کا مجموعہ ایک شخص کے برابر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی بڑا کام آن پڑے تو ایک ہی شخص ہزار کے برابر ہوجاتا ہے۔”
اسی طرح ایک عظیم شخصیت کسی بڑی وجہ سے عظیم بنتی ہے یا اس میں کسی خوبی کا تھوڑا سا حصہ ہوتا ہے۔ اب اگر حال یہ ہو کہ کسی میں سب خوبیاں جمع ہوگئیں، اس کے ساتھ اس نے ہر خوبی میں کمال کا درجہ پالیا اور اپنی عظمت میں اس حد سے تجاوز کر گیا، جو حد لوگوں نے عظمت اور عظیم شخصیت کے لیے مقرر کی ہے، یہ وہ کمال عظمت ہے جس کے لیے اللہ تعالٰیٰ نے اپنے نبی مجتبیٰ علیہ السلام اور محبوب سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کیا ہے۔
پہلی بات: وہ خوبیاں جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلعم کو عطا کی ہیں
وہ خوبیاں جن سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دوسروں سے ممتاز کیا ہے، جو بہتے پانی کی طرح رواں ہیں، ان میں کوئی ٹھہراؤ ہے۔ پس آپ صلعم شریف النسب اور کریم الاصل ہیں۔ آپ صلعم قریش کے مرکزی قبیلہ کے روح رواں، اس کی دھڑکن، اس کے عقل وشرف کی معراج اور زعیم ہیں۔ آج تک آپ صلعم کا نام ضمیر کائنات میں گونج رہا ہے۔ ماں باپ اسی نام کو اپنے بچوں کے لیے پسند کرتے ہیں۔ پس وہ بہترین خاندان سے ہے، ان کا تعلق اونچے قبیلے اور مکرم گروہ سے ہے۔ وہ پاک ومطہر جنس سے ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ وہ بہترین سے بہترین لوگوں میں افضل ترین شخصیت ہے۔ آپ صلعم کو ایسا شرف حاصل ہے جس سے تاروں کو چمک ملتی ہے، اور ایسا منصب ملا ہے جو ہر زمانے میں انقلاب کی نوید سناتا ہے۔
جہاں تک آپ صلعم کی صورت وجمال کا تعلق ہے، تو آپ صلعم خوبصورتی کی اعلیٰ مثال اور مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ صلعم کی ساخت مضبوط، تخلیق کامل، حسن وبشاشت میں لوگوں سے زیادہ حسین اور رعب وجلال فائق تر۔ چہرہ سب سے روشن، بات چیت اور مسکراہٹ میں سب سے دلکش اور دلآویز، جب مسکراتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا کہ بادلوں سے آفتاب نکل آیا ہے اور جب ہنستے ہیں تو دندان مبارک کے درمیان سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔
” جب میں آپ صلعم کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں
تو آپ صلعم کے رخساروں کی چمک مثل ہلال نظر آتی ہے”
یہ تو آپ صلعم کی اس مکمل شخصیت کا ایک معمولی سا تعارف ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے محمد صلعم کو سرفراز کیا ہے۔ جس کی مدح کرنے میں لوگ نہیں تھکتے اور جس کی یاد میں سب گرفتار ہیں۔ لیکن اگر لوگ اس کے علاوہ آپ صلعم کے دوسرے کمالات کو سمجھتے اور ان کی طرف توجہ کرتے تو وہ آپ صلعم میں سمندر کی سی گہرائی اور وسعت دیکھ لیتے جس کی کوئی حد نہیں ہے، اور ایسا چراغ جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں پڑتی، اور ہم اس کا ذکر محمد صلعم کی عظمت کے حوالے سے کررہے ہیں، جس میں اسے درجہ کمال حاصل ہے۔ یہ انہی کی شان ہے اس میں کوئی ان کا ہمسر نہیں ہے۔
جہاں تک اخلاقی عظمت کا تعلق ہے اس میں آپ صلعم ایسی چوٹی پر فائز ہیں جسے کوئی چھو نہیں سکتا اور ایسی بلندی جہاں کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ آپ صلعم لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند، رائے میں سب سے بہتر، فکری لحاظ سے سب سے صحیح ہیں۔ اور تمہارے لیے اتنی بات کافی ہے کہ آپ صلعم نے اتنے سخت، جھگڑالو قبائل اور مغرور وطاقت ور لوگوں کی قیادت کی ہے، لیکن اس کام میں کبھی مال کی لالچ اور طاقت کا رعب ودبدبہ استعمال نہیں کیا۔ بلکہ آپ صلعم ثروت ودولت میں کمزوراور تعداد میں کم ہی تھے۔ لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ کی تائید، محمد صلعم کے انتہائی عزم وارادہ اور کمال عقل وفہم کا کارنامہ ہے۔
آپ صلعم خرچ کرنے میں سب سے زیادہ فیاض ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے میں سب سے زیادہ حریص ہیں۔ آپ صلعم کے نفس میں سخاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ آپ صلعم جود وکرم میں چلتی ہوا کے مانند ہیں۔ آپ صلعم عطا کرنے میں فقر سے نہیں ڈرتے ہیں۔ آپ صلعم رات بوریا پر سو کر گذارتے ہیں ،حالانکہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں میں تحفے تحائف خیرات وصدقہ کرتے ہیں، اور کوئی چیز روکتے نہیں ہیں۔ اپنے ساتھی کو بلاکر کہتے ہیں "بلال خرچ کرو اور عرش والے سے کمی کے متعلق خوف نہ رکھو۔”
آپ فراخ دلی میں سب سے آگے ہیں اور حد درجہ بردبار ہیں۔ جو آپ سے الجھتا تھا اسے اعلیٰ ظرفی سے برداشت کرتے تھے۔ جاہلوں کی جہالت سے اور زیادہ عفو و درگزر میں بڑھ جاتے تھے اور اچھی بات کی تلقین کرتے تھے۔ اپنے اعصاب پر قابو رکھتے تھے اور دشمن پر غلبہ پالینے کے بعد حدود سے تجاوز نہیں کرتے تھے۔ دشمن آپ کی طرف سے رحم وکرم، درگزر اور خوشخبری پاتا ہے۔ آپ صلعم اپنے جود وکرم سے قیدیوں میں عام اعلان فرماتے ہیں:”جاؤ سب لوگ، اب تم آزاد ہو”۔
آپ صلعم تواضع وانکساری میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ آپ غریب ومساکین سے گھل مل جاتے ہیں۔ بوڑھے اور بیوہ کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ایک لونڈی آپ صلعم کو پکڑ کر دور مدینہ کے بازار میں لے جاتی ہے، آپ صلعم اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ آپ صلعم اپنے ساتھیوں سے الگ ہوکر کسی اور عظمت کا اظہار نہیں کرتے ہیں اور نہ اپنی کوئی رسمی شان قائم کرتے ہیں، اور اس کے بارے میں اپنے صحابہ کو واضح کرتے ہیں کہ: "اللہ تعالیٰ کو یہ بات نا پسندیدہ ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے ممتاز بن کر رہے”۔
آپ صلعم سب سے زیادہ نرم طبیعت اور لوگوں کے ساتھ آسانی کرنے والے ہیں۔ جب کبھی دو باتوں میں سے کسی ایک بات کا انتخاب کرنا ہوتا آپ آسان بات کو اختیار کرتے تھے، جب تک کہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ فرائض کے معاملے میں آپ صلعم زیادہ حساس ہیں اور حق کے متعلق بہت سخت ہیں۔ آپ صلعم اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیتے، لیکن حق کے معاملے میں آپ کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ہے، اور حق پر اتنا غضب ناک ہوتے ہیں لگتا ہے آپ صلعم کے روئے مبارک پر انار کے دانوں کی سرخی آگئی ہو۔
آپ صلعم لوگوں کے مقابلے میں زیادہ دل گردہ رکھنے والے، ارادے کے پکے اور لوگوں کو صبر و ثبات پر ابھارنے والے تھے۔ جب بڑے بڑے بہادر ہزیمت تسلیم کررہے تھے، آپ صلعم ہنس رہے تھے، چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آپ صلعم خندہ پیشانی سے بلند آواز میں پکار رہے تھے، میں اللہ کا نبی ہوں، مجھے نہ جھٹلاؤ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
آپ صلعم اپنی انگلی کو ہلاتے ہیں جو راہ حق میں زخمی ہوئی تھی:
"تم ایک انگلی کے سوا کچھ نہیں ہو جس سے خون بہہ رہا ہے ۔۔۔۔ یہ جو کچھ تکلیف تمہیں پہنچی ہے یہ اللہ کی راہ میں ہے”۔
آپ صلعم اس قدر نڈر تھے کہ جب سخت حالات آتے اور گھمسان کا رن پڑتا تو صحابہ آپ صلعم کی آڑ لے لیتے اور آپ صلعم قوت ارادی میں اتنے پختہ تھے کہ کسی ذمہ داری سے گھبراتے نہیں ہیں اور نہ حق کے بارے میں کسی مصالحت سے کام لیتے ہیں۔ کبھی سخت حالات میں جھجھکتے یا کمزوری نہیں دکھاتے ہیں اور اپنے صحابہ کے سامنے عملی مثال بن کر دکھاتے ہیں، ان سے فرماتے ہیں: "ایک نبی کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی قوم کو جنگ میں چھوڑ کر خود واپس چلا آئے”۔
آپ صلعم لوگوں میں عفو و درگزر کرنے والی زبان رکھتے تھے۔ سب سے زیادہ واضح اور صاف بات کرنے والے تھے۔ آپ صلعم کے الفاظ موتیوں کی طرح کسی مالا میں پرویے جاسکتے تھے، روشنی کی طرح چمک دمک، پاک وصاف، فضیلت سے بھرپور، صدق قول وعفت میں اعلیٰ مرتبہ پر فائز اپنے صحابہ سے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مجھے بے ہودہ گفتگو کرنے، بے ہودگی دکھانے، لعنت ملامت کرنے یا بازاروں میں چیخنے چلانے کے لیے مبعوث نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ہدایت اور رحمت بناکر مبعوث کیا گیا ہے”۔
آپ صلعم عدل سے فیصلہ کرنے والے ہیں اور لڑائی جھگڑے کا فیصلہ کرنے میں سب سے بڑے منصف ہیں۔ اپنی ذات کے لیے چھوڑنے والے اور مخالف کے لیے بدلہ لینے والے ہیں، اپنے قریب ترین لوگوں پر حد قائم کرنے والے ہیں اور اس ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس کے قبضے میں آپ صلعم کی روح ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے گی تو محمد صلعم اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے”۔
روحانیت واخلاق میں بلند، اعلیٰ وارفع نفس، اللہ کی معرفت میں پختہ، مضبوط ارادہ رکھنے والا، نفس کے حقوق ادا کرنے والا، فرائض وواجبات اور اطاعت کی ذمہ داریاں بخوبی نبھانے والا، فرائض وواجبات کی ادائیگی اور حقوق کی پاسداری کرنے میں عجیب وغریب توازن قائم کرنے والا، ہر حق دار کو پورا حق دینے والا، اپنے رب، بیوی ، دوست، اور دعوت کا حق ادا کرنے والا۔ انسانی فرائض میں سے ہر فرض کی اپنی مقتضیات ہوتی ہیں جن کو سیکھنا اور ادا کرنا ضروری ہے۔
دنیا داری میں سب سے زیادہ زہد وتقویٰ اور دنیاوی ساز وسامان سے لاتعلقی اختیار کرنے والا۔ جو چیز پیش کی جاتی کھا لیتے تھے، کھانے پینے میں کوئی عیب نہیں نکالتے تھے اور اگر کوئی چیز کھانے کو نہ ملتی تو فرماتے میں روزہ دار ہوں۔ بوریا اور ٹاٹ پر سوتے تھے اور عیش وعشرت میں مگن لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں "ان کے لیے دنیا ہے اور ہمارے لیے آخرت ہے”۔
اپنی جوانی قریش کی اس عورت کے ساتھ گذر بسر کی جو آپ سے پندرہ سال بڑی تھی۔ جس نے آپ سے پہلے شادی کی تھی اور اپنی جوانی دوسرے مرد کے ساتھ گذاری تھی۔ اس کے بعد کسی اور نے اس عورت سے شادی نہیں کی اور آپ صلعم نے اس کے بعد لذت حاصل کرنے کے لیے شادی نہیں کی اور آپ صلعم کی ازواج مطہرات میں باکرہ کوئی نہیں تھی سوائے عائشہ صدیقہ کے، جس کی عمر نکاح کے وقت نو برس تھی اس عمر میں بچے آپ کے پاس کھیلنے آتے تھے، وہ کپڑے اور سوت سے بنائی ہوئی گھڑیا اور کھلونوں سے کھیلا کرتی تھیں۔
آپ صلعم کمزوروں کی سب سے بڑھ کر داد رسی کرتے تھے۔ مساکین اور پریشان حال لوگوں پر رحم وکرم روا رکھتے تھے۔ آپ صلعم کی شفقت ومحبت انسان وحیوان کے لیے عام ہے، انہیں خون جگر سے پالتے تھے اور ہر ایک پر دست شفقت رکھتے تھے اور فرماتے ہیں: "ہر درد دل رکھنے والے کا اجر ہے” اور حیوان کے ساتھ نرمی برتنے میں اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے بندے کا مشکور ہوتا ہے اور اس کے اخلاق کو سراہتا ہے اور بے زبان جانور پر سختی برتنے کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آپ صلعم اپنے صحابہ کو خبردار کرتے ہیں: "ایک عورت اس بات پر داخل جہنم کی گئی کہ اس نے ایک بلی کو قید کر رکھا تھا نہ اسے کھلاتی پلاتی تھی نہ اسے چھوڑ دیتی تھی کہ ادھر ادھر سے جھوٹا کھانا کھاتی۔”
آپ صلعم صاف وشفاف ذہن، صاحب فہم وفراست اور قوی العزم ہونے کے باوجود سب سے بڑھ کر رقیق القلب، باشعور اور حساس تھے۔ اپنی ازواج مطہرات کی محبت ووفا میں فرماتے ہیں: "مجھے تمہاری دنیا میں سے تین چیزوں کی محبت عطا ہوئی ہے: عورت، خوشبو اور نماز کے اندر میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے، اور اپنے بیٹے کی شفقت ومحبت میں فرماتے ہیں جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے "یقیناً دل غمگین ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں لیکن ہم وہی بات زبان سے نکالیں گے جس میں ہمارا رب راضی ہے اور میرے بچے ابراھیم۔۔ ہم تم سے بچھڑ کر بہت اداس ہیں”۔
ہجرت کے بعد آپ صلعم کے دل کو اپنے وطن اور شہر کی یاد ستاتی ہے، کیونکہ آپ وہاں پلے بڑھے ہیں اور آپ کی آنکھوں سے اشک بہنے لگتے ہیں اور آپ صلعم اصیل غفاری سے مکہ کی تعریف میں فرماتے ہیں: "اے اصیل ہمیں مکہ کی یاد نہ دلاؤ دلوں کو کچھ قرار تو پکڑنے دو”۔
یہ نور نبوت کی ایک کرن ہے اور محمد صلعم کے پاکیزہ اخلاق کے چراغ کی روشنی ہے آپ صلعم کے قول اور عظمت میں ساری تفصیل ہے ۔
"میں نے تو بات کے لیے بہت وسیع جگہ پائی ہے
اگر تیرے پاس بات کرنے والی زبان ہے تو کہہ دے”
تم نے کسی بڑے آدمی کو دیکھا ہوگا جو اپنی قوم میں بڑی عزت رکھتا ہے اور بہت سی خوبیوں میں سے کسی ایک خوبی کی بنا پر اپنے خاندان وبرادری کی قیادت کرتا ہے۔ اب ذرا اس شخصیت کے متعلق سوچو جسے یہ ساری خوبیاں بخشی گئی ہیں اور وہ بھی انتہا درجے کے کمال کے ساتھ؟ عام رائے یہی ہے کہ ہر بڑے آدمی میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے، ہر سردار کسی نہ کسی معاملے میں خطا کرتا ہے، اور ہر دانا وزیرک آدمی میں کوئی نقص ہوتا ہے جو اس کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور اس کی پہچان بن جاتا ہے، جس طرح چاند میں داغ ہوتا ہے یا بادلوں کے پیچھے سورج کی روشنی چھپ جاتی ہے۔ اگر بھروسہ نہیں ہے تو جاکر تاریخ کا مطالعہ کرو اور مجھے اس عظمت والے نبی کی کوئی کمزوری ڈھونڈ کر دکھاؤ، ہرگز نہیں ملے گی، پس آپ صلعم کو کمزوری سے پاک رکھا گیا ہے۔ آپ صلعم لغزشوں سے بالاتر ہیں اور آپ صلعم اس مقام پر کھڑے ہیں جو صرف نبوت کے شایانِ شان ہے۔
"آپ صلعم کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ صلعم جیسا چاہتے تھے ویسا آپ کو بنایا گیا ہے”
دوسری بات: وہ عظیم کارنامہ جو آپ صلعم نے انجام دیا
ابھی تک جو بات ہوئی ہے وہ ان خصوصیات اور خوبیوں کے بارے میں تھی جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی عظیم کو خاص کیا اور اسے ودیعت کردی۔ جہاں تک آپؐ کے کارنامے کا سوال ہے جو آپؐ نے انجام دیا ہے تو میں ان کے رب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی مجھے بتادے کیا کوئی عمل اس عظیم رسالت، بھاری نبوت، دعوت عامہ اور ہمہ گیر وہمہ جہت اصلاح سے بڑا ہوسکتا ہے؟ جو نہ صرف ہر قوم بلکہ جن وانس کے لیے زندگی کے ہر پہلو، دنیا و آخرت کے ہر شعبے کی اصلاح کرنے آیا ہے۔ اور قرآن کریم کے علاوہ کون سی ایسی کتاب شریعت ودعوت ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے؟ جسے نبی صلعم انسانیت کے لیے چھوڑ کر گئے ہیں، جس سے ہم ہدایت پاتے ہیں جس کی روشنی میں ہم چلتے ہیں۔ جس کی تعلیمات سے ہم اصلاح کرتے ہیں اور جس کی طرف لوگ ہر طرف سے مایوس ہوکر رجوع کرتے ہیں، اور اپنے قانون ونظام سے تنگ آتے ہیں: "ہم عنقریب انہیں کائنات اور نفس انسانی کے اندرپھیلی ہوئی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ اللہ ہی حق ہے کیا یہ بات تیرے رب کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے”۔ (فصلت: 53)
آپ کی فضیلت میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ آپ صلعم اس پیغام کے حامل ہیں جو آسمانوں سے زمین کی طرف بھیجا گیا اور اس قرآن مجید کو دنیا کے ساتھ جوڑنے کا وسیلہ ہیں یہ وہ فضل ہے کہ ساری دنیا اس کا شکر بجا لانے سے قاصر ہے اور پوری انسانیت جس کا احاطہ نہیں کرسکتی اور نہ اس کے لانے والے کا کوئی بدلہ چکا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ وہ کتاب ہے اگر لوگ اس کی پیروی کریں گے تو یہ دنیاوی فلاح اور اخروی سعادت سے ہمکنار کرے گی ان کے مشکلات حل کرے گی اور شکوک وشبہات سے بچائے گی: "باطل اس کے پاس سے نہیں پھٹکتا ہے نہ اس کے پیچھے آسکتا ہے اور نہ سامنے سے گزر سکتا ہے یہ حکمت والے اور ذات محمود کی طرف سے نازل کی گئی ہے”۔ (فصلت: 42)
اگر تم اللہ تعالیٰ کی کتاب کا بغور مطالعہ کرو گے تو تم اس میں مکمل آئین وشریعت پاؤ گے جو فرد کو اس کی آزادی اور حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور اس کی عام ذمہ داریاں اور اللہ کے تئیں اس کے مخصوص فرائض کی وضاحت کرتا ہے اس کے ساتھ اپنے نفس کے ساتھ تعلق، اپنی فیملی، وطن اور پوری دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت واضح کرتا ہے۔ یہ خاندان کی تربیت اور تشکیل کے لئے بہترین معاشرتی ونفسیاتی اصولوں کی بنیادیں فراہم کرکے اس کی اس کی خوشحالی اور سکون کی ضمانت دیتا ہے، اور خاندان کی ان مشکلات کا بہترین حل پیش کرتا ہے جو اسے انتشار واضمحلال کی طرف دھکیلتے ہیں، اور ان وسائل کی نشاندہی کرتا ہے جو افراد خانہ کے درمیان آپسی اتحاد وتعاون قائم کرتے ہیں، جہاں ایک دوسرے کے عمل کو سراہا جاتا ہے اور خیر کے لیے تعاون کی دعوت دی جاتی ہے، اور امت کے لیے ایسا مستحکم نظام پیش کرتا ہے جو حاکم ومحکوم کے تعلق کی وضاحت کرتا ہے، معاملات میں شوریٰ قائم کرتا ہے اور لوگوں میں مساوات کو فروغ دیتا ہے، جہاں صرف عمل کی وجہ سے درجہ ملتا ہے اور فرق صرف حقوق کے لحاظ سے ہے، پھر مختلف قوموں کے آپسی تعلقات کی نوعیت بتاتا ہے اور بنی نوع اِنسان کے آپسی تعاون کو انسانیت کی مشترکہ مفاد کے لیے فرض قرار دیتا ہے اور اس اشتراک کو اپنی ممکنہ انتہائی درجے تک لے جانے کی تلقین کرتا ہے۔
یہ سب کچھ قرآن مجید نے اپنی فصیح وبلیغ زبان اور مضبوط وجامع کلام میں بیان کیا ہے اور سنت مطہرہ نے اس کی تفصیلاََ وضاحت کی ہے۔ اس کے مطلب کو سمجھایا ہے اس سے مسائل کا حل نکالا ہے۔ پس آپ صلعم اسلامی شریعت کی تشریح کرنے والے، صحراء میں پیدا ہونے والے، صحراء میں ثمرات اگانے والے اور اسی بنجر کو آباد کرنے والے ہیں۔ جو شریعت سب سے مکمل، بہتر اور پوری ہے، جو تنقید سے بالاتر اور خطا سے مبرّا ہے۔ "جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر دوسرا دین اپنائے گا اس کا دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارے میں پڑجائے گا”۔ ( آل عمران: 85)
پھر کون سا عمل اس سے افضل ہے؟ اور کون سے آثار زیادہ دیرپا ہیں! اگر ساری دنیا جمہوریت اور فلسفہ میں افلاطون کی عظمت تسلیم کرتی ہے اور اخلاق و قوانین میں فضل ارسطو کی قائل ہے، ہمت وعزیمت میں نابلیون کی تعریف کرتی ہے، حالانکہ یہ سب غلطیاں کرتے ہیں اور شدید تنقید کا سامنا کرتے ہیں، اس پر مستزاد ان سب کے نظریات زیادہ تر خیالی ہیں، جو تنقید کے سامنے کھڑے نہیں رہ پاتے اور نہ حقیقت سے میل کھاتے ہیں، اس کے اوپر ان سب نے کافی ڈگریاں حاصل کیں، بہت سے ثقافتی مراکز میں رہے، پھر بھی ان کے کام میں کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے لیے کچھ مشکل معلوم نہیں ہوتا ہے۔
اگر یہ بات ہے تو پوری دنیا پر فرض ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ محمد صلعم کی عظمت کو سارے لوگوں کی عظمت پر فوقیت دی جائے۔ ان کی فضیلت ہر کسی فضیلت سے اعلیٰ ہو، ان کی تعریف ہر تعریف پر بھاری ہو، ان کی تقدیس ہر شخص کی تقدیس سے بلند ہو۔ پھر اگر آپ صلعم کونبوت کی خصوصیات اور رسالت کے دلائل سے نہ بھی نوازا جاتا پھر بھی آپ صلعم کی سیرتِ طیبہ اور اس کی ابدی شریعت کافی تھی: ” یہ نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کے پاس حاضر دل ہو یا ہوش وگوش سے کام لیتا” (ق: 37)
تمہارے لیے یہ معجزہ جاننا کافی ہوگا کہ ایک امی کے پاس جاہلیت کے دور میں اتنا علم ہے اور یتیم ہونے کے باوجود آپ کے پاس اتنا ادب ہے۔
تیسری بات: وہ نفع جو آپ نے انسانیت کو پہنچائی
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ نے انسانیت کو کیا فائدے پہنچائے اور دنیا نے آپ سے کیا نفع حاصل کیا، تو اس حوالے سے یہ بات تمہارے لیے کافی ہے کہ آپ صلعم نے انسانیت کو ان ہولناکیوں اور تباہیوں سے بچایا جس سے وہ آپ صلعم کی بعثت کے وقت دوچار تھی۔ انسانیت کے درد کا درماں اور پریشانی وانتشار کا حل صرف اسی دوا اور نسخہ میں ہے جسے اسلام نے وضع کیا ہے اور اگر لوگ اپنی آنکھوں کی پٹیاں کھول دیں اور تعصب کی عینک اتار دیں اور اپنے دلوں سے وہم کی پرچھائیاں صاف کریں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ ساری مشکلات، بلکہ دنیا کی مشکلات کا کاف وشافی حل اسلام کے سوا کہیں نہیں ہے، اور یہ سب سے سہل اور نفع بخش دوا ہے۔ دنیا اور اس کے خوشحالی وراحت کے بیچ میں صرف تقویم شریعت اسلامی کا عام ہونا ہے اور لوگ دیر یا سویر اپنے تجربات سے اس نتیجے تک پہنچ ہی جائیں گے اور کچھ عرصہ بعد یہ خبر آجائے گی۔
ہاں اگر عظمت، سیاسی میدان میں منفرد طریقہ کار آزمانے سے آتی ہے تو ہمارے نبی اکرم صلعم وہ سیاست دان ہیں جو کسی بھی فیصلہ کے موقع پر سچائی اور خلوص کی توفیق سے محروم نہیں رہا۔ نہ کبھی دھوکہ دہی اور منافقت سے کام لیا اور اگر مہارت کا مطلب یہ ہے کہ فوج کی قیادت کی جائے اور کم سے کم نقصان اٹھا کر بڑی فتح حاصل کی جائے تو یہ شان صرف آپ صلعم کی ہے جس نے ہر غزوہ اور مہم میں اپنی فوج کو فتح دلائی ہے۔
اور اگر عظمت قوت تاثیر میں ہے تو آپ صلعم سے بڑھ کر تاریخ نے قوت تاثیر کسی میں نہیں دیکھی ہے، جو تاثیر صحابہ میں آپ کی تھی، وہ نہ کسی زمانے میں دیکھی گئی ہے اور نہ کسی کتاب میں رقم ہوئی ہے۔ نہ دنیا نے کوئی ایسی جماعت دیکھی ہے جو اپنے نبی کی اس حد تک اتباع کرتی ہے یا اپنے قائد کے طریقہ پر چلتی ہے، جس والہانہ جذبہ سے یہ مخلص صحابہ کا گروہ چلتا ہے اور جب تم عظمت والی کتاب کا مطالعہ کرو گے تو تم محمد صلعم کی عظمت اس کی صاف سطروں اور اس کے خوبصورت مضامین میں دیکھو گے۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر فخر کریں اور ان کے لیے اپنے نبی عظیم میں بہترین نمونہ ہے۔
مآخذ وحوالہ جات:
مجلہ اخوان المسلمین نمبر (8) سال دوم مؤرخہ 9 ربیع الاول 1353ھ
مترجم: سجاد الحق