اس میں کوئی شک نہیں کہ عید جیسے خاص ایام بچوں کے اندر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑاتے ہیں، اور بچے ناقابل بیان مسرت کے ساتھ ان ایام کا استقبال کرتے ہیں۔ ایسے مواقع بچوں کے جوش و خروش، امید اور ان کی خوشیوں میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے عشرۂ ذی الحجہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت ہی بہترین موقعہ ہوتا ہے اور یہ موقعہ مسلمانوں کو ہر سال عطا کیا جاتا ہے۔ یہ ایام بچوں کے دلوں میں تعلیم وتربیت اور ایمان کی جڑیں راسخ کرنے اور ان تعلیمات کو مثبت احساسات، مسرت بھرے لمحوں اور خوشیوں سے جوڑنے کا سنہری موقعہ فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے افضل یہی ہے کہ والدین اور اساتذہ ان عظیم ایام کو غنیمت جان کر، ضائع کیے بغیر، ان کے اثرات بچوں کے ذہنوں پر نقش کرنے کی کوشش کریں، تاکہ وہ اسلامی شعائر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جوانی کی عمر میں قدم رکھیں اور اس کے فرائض و نوافل بجا لانے کے عادی بن جائیں۔ ان کی پرورش اس طرح ہو کہ ان کے دلوں میں اس بات کی عظمت بیٹھ جائے، جس بات کو ہم عظیم مانتے ہیں۔ بچوں کے لیے وہی چیز سب سے مقدم ومحترم بن جائے جس چیز کی بڑائی اور تقدس پر ہمارا ایمان ہے۔
عشرۂ ذی الحجہ میں بچوں کی تربیت: ایمانی راہ عمل
اہل خانہ اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ عشرۂ ذی الحجہ اور بابرکت عید الاضحی کے دوران بچوں کی تربیت کے لیے ایمانی راہ عمل کے واضح خطوط مقرر کریں، اس طرح انہیں اپنے مہربان اور کریم رب کی رحمت حاصل ہوگی۔ جس کا طریقہ کار درج ذیل ہے:
پہلے اطاعت، پھر خوشیاں: یہ ایک ضروری تصور ہے جسے بچہ مخصوص ماحول میں رہ کر خود ہی اپناتا ہے، البتہ اسے اس کے متعلق آگاہ کرنا اور اس کے ساتھ جوڑنا لازمی ہے۔ عید الاضحٰی اور اس سے قبل چند دن دنیا کے عظیم ترین دنوں میں شمار ہوتے ہیں، جو ذوالحجہ کے عشرہ اوّل پر مشتمل ہیں۔ لہٰذا بچہ اپنے والدین اور گھر والوں کے ساتھ ان دنوں کے تجربات سے گذرتا ہے، جب اس کے گھر والے ان بہترین دنوں اور راتوں کی فضلیت حاصل کرنے، ذکر واذکار، روزہ، قیام اللیل، دعا، صدقہ اور دوسری بڑی مختلف نیکیاں کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ دل کھول کر عید کا استقبال کرتے ہوئے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تاکہ وہ ان کے اعمال قبول فرمائے۔ اس تجربہ کے ذریعے بچہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ ایک مسلمان کی خوشی اطاعت سے وابستہ ہے اور دنیا کی دولت سے پہلے آخرت کی طلب اور حاصل شدہ دولت پر ہر زاویہ سے آخرت کی فکر چھائی ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کے ذریعے آخرت کا گھرتلاش کرو اور دنیا میں اپنے حصے کو نہ بھولنا)۔ [القصص: 77]
ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت: بہت اچھا رہے گا اگر والدین ان ایام کی فضیلت بیان کرنے والی آیات اور احادیث لکھ کر گھر کی کسی نمایاں جگہ آویزاں کرکے اعلان کریں کہ جو کوئی فیملی ممبر ان آیات کو حفظ کرے گا اسے انعام سے نوازا جائے گا۔ اسی طرح اپنے بچوں کو جمع کرکے ان ایام کی فضیلت بیان کریں کہ ان میں نیکیاں کرنے کے کتنے مواقع میسر ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے خاندان کی کہانی: عید الاضحٰی، مناسک حج اور قربانی کی رسمیں ابوالانبیاء ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کے خاندان سے وابستہ ہیں، لہٰذا ان ایام میں ان کی کہانیوں کو معلومات اور جذبۂ اخلاص سے پر، مؤثر اور دلچسپ انداز میں بیان کرنے سے بچہ ان کہانیوں میں موجود ایمانی دروس اور حج، قربانی، عید اور ایام عشرہ کے درمیان قائم ربط کو سمجھ لیتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے دلوں پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔
خوشیاں دوسروں میں بانٹنے سے مکمل ہوتی ہیں: یہاں بچے کو محض قربانی کی قانونی حیثیت کے بارے میں تعلیم دینا اور رسمی نصیحت کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ بچے اور نوجوانوں کو چھوٹی عمر سے ہی قربانی میں شریک کرلینا چاہیے۔ ماں باپ گوشت کی تقسیم کاری کے دوران بچوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیں اور یہ تلقین جاری رکھیں کہ مسلمان کی خوشی دوسروں میں خوشیاں بانٹنے سے مکمل ہوتی ہے۔
عید کی خوشی: والدین کے لیے ہر حال میں ضروری ہے کہ عید کے دن بچوں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں، اور دن کی شروعات عید کی نماز، مسلمانوں کے اجتماع اور تکبیرات میں شرکت کرکے کریں۔ دوسرے خاندانوں اور پڑوسیوں کو خوشیوں میں شریک کرنا نہ بھولیں اور اس عظیم دن پر اپنے آس پاس کے غمزدہ اور پریشان حال لوگوں کا خیال رکھیں۔
عشرۂ ذی الحجہ میں بچوں کی پرورش کا عملی طریقہ:
عشرۂ ذی الحجہ اور عید الاضحٰی کے دوران بچوں کی ایمانی تربیت کا اہتمام کرنے کے علاوہ کچھ عملی ذرائع بھی ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ان بابرکت اور مقدس لمحات میں بچوں کے دلوں میں یہ تعلیمات بٹھائی جاسکتی ہیں، جن میں یہ چیزیں شامل ہیں:
- عشرۂ ذی الحجہ میں کیے جانے والے اعمال پر مبنی معلومات کو اشتہارات اور پمفلٹ میں چھاپ کر تیار کرنا، تاکہ بچے ان چیزوں کو رشتہ داروں، پڑوسیوں، محلے کی مسجد اور اس کے ملحقہ مراکز میں تقسیم کرسکیں۔
- رنگ برنگے عید کارڑذ بنوانا، جن پر اس عظیم تہوار کے تئیں اظہار مسرت اور شوق سے بھری ہوئی عبارات لکھی ہوں اور بچوں کو اس عمل میں حصہ ڈالنے اور عید کا بہترین طریقے سے استقبال کرنے کی تیاری پر ابھارا جائے۔ پھر ان کارڑذ کو گھر کے در و دیوار اور اس کے داخلی دروازوں پر چپکا کر اس کام کا آغاز کریں۔
- گھر کے ہر فرد کے لیے ذاتی لائحہ عمل بنائیں، جس کی پیروی وہ خود کرتا رہے گا، جیسے روزانہ کی بنیاد پر قرآن مجید کا کچھ حصہ تلاوت کرنا، صبح وشام کے ذکر واذکار کو دہرانا، اس کے ساتھ بچوں پر یہ بات واضح کرنا کہ یہ منصوبہ عمل کسی کی نگرانی کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ عمل پیرا ہونے کے لیے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر خود نگہبان ہے۔
- اپنی ذاتی نشوونما اور عادات بدلنے کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کرنا، جہاں ہر فرد یہ طے کرے گا کہ وہ کون سی عادت ہے جسے وہ اپنانا چاہتا ہے اور کون سی عادت ہے جسے وہ بدلنا چاہتا ہے، اور کس طرح ہر فرد مطلوبہ تبدیلی تک پہنچنے کے لیے اپنے یومیہ منصوبہ عمل کی پیروی کرکے اپنی ذات اور اس میں ہونے والی ترقی پر نظر رکھے گا۔
- افراد خانہ کے درمیان مسابقت کرانے کا اعلان، جہاں ایام عشرہ کے پہلے روز مسابقت کے اشتہارات تقسیم کیے جائیں گے اور لازمی ہے کہ یہ مقابلے علم وہنر کے کسی بھی ایسے شعبے میں کروائیں جائیں جس سے بچوں کو محبت ہو اور جس کو وہ ترجیح دیتے ہوں۔ کیونکہ یہی بچے اس میں حصہ لینے والے ہیں اور یہی اس انعام کے لیے مقابلہ کرنے والے ہیں جو عید الاضحٰی کے دن تقسیم کیا جائے گا۔
- بچوں کی نفسیاتی تیاری، ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں ان تھوڑے سے دنوں میں شریک عمل ہونے پر مسلسل ترغیب دینا۔ بڑوں اور چھوٹوں سب کو مکمل نو دن روزہ رکھنے کی ترغیب دینا، کیونکہ اس پر اجر عظیم ملے گا، خاص کر یوم عرفہ کا روزہ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے اللہ پر بھروسہ ہے کہ وہ یوم عرفہ کا روزے رکھنے پر پچھلے اور اگلے دونوں سال کے گناہ بخش دے گا ” [مسلم]
- گھر میں گھر والوں کو قرآن کی آیات، حکمت کی باتیں اور کہانیاں سنانا، تاکہ وہ اس عشرہ کے دن ختم ہونے سے پہلے اس کا فائدہ اٹھا سکیں اور دوسروں کو دعوت دینے میں مسابقت کرکے اپنا اجر دوگنا کرسکیں۔
- بلند آواز میں تکبیرات اور تہلیلات دہرانا اور انہیں گھر میں پھیلانا۔ یہ ایک رسمی مظاہرہ ہے اور اس کے ساتھ ان لمحات سے فائدہ اٹھانے کی یاد دہانی بھی ہے جن میں ہر قسم کی عبادات جیسے نماز، روزہ، صدقہ، راستبازی اور صلہ رحمی انجام پاتی ہے۔ اور اگر حج کے سفر پر جانا نہ ہو تو قربانی کا فریضہ انجام دینے، شعائر کا اظہار کرنے اور باقی ساری عبادات میں رہنمائی کرنے، مشاہدہ کرنے اور شریک ہونے میں تزکیہ وتربیت کےلیے وسیع تر موقعہ ہے۔
- گھر پر خانہ کعبہ کا ماڈل بنوائیں اور بالکل سہل انداز میں عملی طریقے سے بچے کے ساتھ مل کر مناسک حج کے مراسم ادا کریں۔ اس کے لیے ہم گھر کے ہر کونے میں مناسک حج میں سے ایک چھوٹا سا حرم لگائیں گے، اور بچوں کو ان کے درمیان سعی کرنے کے لیے کہیں گے اور ساتھ ساتھ ان کے متعلق جانکاری بھی دیں گے، اس حال میں کہ بچوں نے حج کے مخصوص کپڑے پہنے ہوئے ہوں۔ اس طرح بچے ان مناسک حج کے ساتھ کچھ وقت گذاریں گے جس سے ان کی تعلیم اور اسں محبت پر بہت اچھا اثر پڑے گا جو وہ اس عبادت سے کرتے ہیں۔
- بچوں کو قربانی کی بھیڑیں خریدنے کے لیے اپنے ساتھ لے کے چلنا۔ ہم انہیں واضح طور بتائیں گے کہ قربانی سے ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت زندہ ہوتی ہے اور یہ داستان نجات اور جانثاری کی یاد تازہ کرتی ہے، کیونکہ اسماعیل علیہ السلام کی نجات اور ذبح سے بچ جانے کا دن مسلمانوں کے لیے عید الاضحٰی کی خوشی بن گئی ہے۔ جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس سنت کی یاد تازہ کرنے کے لیے قربانی کرتے ہیں اور یہ کہانی ان کے ذہنوں اور روحوں پر انمٹ نقوش چھوڑے گی، وہ اس کے کرداروں کی زندگی گزاریں گے، اسے شوق سے سنیں گے، اس میں موجود اصول وحکمت کو اپنا لیں گے، اور اپنی روح کے لیے اس کے واقعات سے گہرے تصورات اخذ کریں گے، اور اس کے مقصد ومراد پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ ان کی سوچ کے دریچے کھول کر قوت اظہار اور مفید تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرے گا۔
- بچوں کو حج سے جوڑنا، اور کم عمری کے باوجود ان کے دلوں میں اس کی عظمت بٹھانا۔ اور اس وقت جب بچے ٹیلی ویژن پر مناسک حج کا مشاہدہ کر رہے ہوں ہم ان تصویروں کی وضاحت کرنا شروع کر دیں گے، اور ان کا اجر و ثواب اور فضیلت بیان کریں گے اور مناسک حج پر مشتمل واضح تصاویر کی تفصیل بتا کر بھی سمجھائیں گے، تاکہ ان کے پاس پہلے سےموجود معلومات کی تصدیق ہوجائے، اور ان کے دلوں میں اس فریضہ کی محبت پیدا ہوجائے۔
مربیین عشرۂ اوّل سے کیسے فائدہ اٹھائیں؟
اساتذہ کو چاہیے کہ عشرۂ ذی الحجہ کے دنوں کو بڑوں اور بچوں کے لئے ایمانی فضا پیدا کرنے میں استعمال کریں اور وہ اس طرح سے ہوگا:
- ایمانی فضا پیدا کرنا:
مربی اسلامی نصاب سے فائدہ اٹھا کر ان ایام میں ایمانی ماحول پیدا کرسکتا ہے۔ ایک عمومی ایمانی ماحول کے اثر سے مطلوبہ افراد کی تربیت کی جاسکتی ہے جیسے روزہ رکھنا، تکبیرات کہنا، ذکر واذکار کرنا، قربانی کا ارادہ رکھنے والوں کا بال یا ناخن نہ کاٹنا، مختلف مقامات پر حاجیوں کا بلند آواز میں تلبیہ کہنا اور اس موقعہ سے وابستہ دیگر رسومات کی ادائیگی کے ذریعے تربیت کی جاسکتی ہے۔
- ان اجتماعی کاموں میں حصہ لینا جو قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتے ہیں:
جیسے روزہ داروں کے لئے اجتماعی دعوت اور کھانے کا انتظام کرنا اور غریبوں کو اس کھانے پر بلانا جس کھانے کو آپ نے خود تیار کیا ہے اور جسے تیار کرنے میں کافی محنت لگی ہے۔
- نفس، اخلاق اور عادات کو منفی سے مثبت رویہ میں تبدیل کرنے کی دعوت:
ان ایام عشرہ میں مناسب ہے کہ معلم اپنی دعوت کی تجدید کرے اور اپنے شاگردوں کو برے اور منفی عادات و اخلاق کو بدلنے کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے ابھارے۔ ساری مخلوق کے ساتھ صاف وپاک دل سے پیش آنے کی تاکید کرے، اور ایسے اخلاق اپنانے پر زور دے جو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے میل کھاتے ہوں – اور ایسے طیب وپاک مومنانہ عادات جو جاہلی عادات واطوار، خود غرضی، خود پسندی اور دوسروں پر غالب ہونے کی آرزو سے پاک ہوں ۔
- تعاون، وحدت کلمہ اور مل جل کر رہنے کی رہنمائی:
عشرۂ ذی الحجہ کی وجہ سے تعاون، عدم تفرق اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا صحیح مطلب سمجھ آتا ہے۔ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کی طرف راغب ہوتے ہیں اور حجاج زمین کے مشرق و مغرب سے ایک ہی طریقہ اور ایک ہی مقصد لے کر تعاون اور اتحاد و اتفاق کی سب سے اعلیٰ اورحقیقی تصویر کی مثال پیش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی تقدیر میں اللہ نے اس سال حج نہ لکھی ہو وہ قلبی جذبات کے ساتھ حاجیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
- مربی اپنے شاگردوں کو مخالفت اور تفرقہ بازی ترک کرنے اور اتحاد کے لیے سعی کرنے کا مطالبہ کرے۔ وہ کسی کے اچھے کام کو حقیر نہ سمجھے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اور ان تمام لوگوں کو جو خدا کے لیے کام کرنے والے ہیں ،اپنے مقاصد میں معاون سمجھیں، لہٰذا ان کے لیے دعا کرے، ان کی فتح کی امید رکھے، نہ انہیں اکیلا چھوڑے اور نہ بے یار و مددگار۔
- والدین اور معلمین پر فرض ہے کہ جوں ہی ذیالحجہ کا بابرکت عشرہ آتا ہے تو اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے اس سے استفادہ کریں۔ اس کے فضائل بیان کریں، اسلام کے عقیدہ پر ان کے ایمان کو بڑھانے والی کہانیاں سنائیں۔ اور دوسروں کو دعوت دینے میں مسابقت کی تلقین کریں جس سے ان کا اجر وثواب دوگنا ہو جائے گا۔
یہ معلوم ہے کہ بچہ اپنے والدین اور اساتذہ سے متاثر ہوتا ہے، اور یہ اثر ایک طویل عرصے تک رہتا ہے، جو اس کی پوری زندگی جاری رہ سکتا ہے۔ والدین، بہن بھائی اور مربیین کے أصول و اقدار اور ان کے اثرات بچوں کی روزمرہ کی زندگی میں براہ راست منتقل ہوتے ہیں۔ لہٰذا تعلیم و تربیت کے ذمہ دار اشخاص کو چاہیے کہ وہ بچوں کی علمی، اخلاقی، روحانی اور تکنیکی تربیت کا مکمل اور باضابطہ انتظام کریں، جو انہیں اپنے رب پر ایمان لانے والے، نیک اور صالح نفوس اور اپنے معاشرے کی تعمیر کرنے والے بنادے۔
مآخذ و حوالہ جات:
محقق می عباس: عشرہ ذی الحجہ میں بچوں کی ایمانی تربیت، ایک مطالعہ
عشرۂ ذی الحجہ اور ہمارے بچے
عشرۂ ذی الحجہ اور ہماری اولاد، تربیتی وقفہ
ذی الحجہ کے عشرہ اوّل سے استفادہ کرنے کا منصوبہ عمل اور بچے کی تربیت
ذی الحجہ کے دس دن اور ہمارے بچے
ایّام ذی الحجہ: ایک ایمانی درسگاہ
مترجم: سجاد الحق