دنیا آج انٹرنیٹ کی دستیابی کی وجہ سے ایک چھوٹا سا گاؤں بن چکی ہے، جس نے بچوں اور بڑوں کے لیے خود آموزی (سیلف ایجوکیشن) کا نظام قائم کر دیا ہے۔ صرف ایک بٹن دبانے سے علم اور تعلیم، کتابیں تلاش کرنے، لائبریریوں میں جانے، یا کسی تعلیمی ادارے جیسے اسکول، یونیورسٹی، یا خصوصی اداروں میں جانے کی پریشانی کے بغیر ہی دستیاب ہو جاتا ہے۔
اس قسم کے سیکھنے کو ارادی طریقہ عمل سمجھا جاتا ہے، جس میں سیکھنے والا تکنیکی ایپلی کیشنز، پروگرام شدہ کتابوں، تدریسی طریقوں اور مشینوں کا استعمال کرتے ہوئے یا ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علم، تصورات، اصول، رجحانات، اقدار اور مہارتوں کی ایک خاص مقدار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ خود ہی اپنے سیکھنے کا ہدف، منصوبہ اور وقت طے کرتا ہے۔ اور بعض اوقات وہ کچھ سپروائزرز اور ٹرینرز کی رہنمائی بھی حاصل کر سکتا ہے، جیسا کہ آن لائن تربیتی کورسز میں ہوتا ہے، لیکن بڑی ذمہ داری ہر وقت اس کے اپنے کندھوں پر ہوتی ہے۔
خود آموزی (سیلف ایجوکیشن) کا تصور اور اس کی اہمیت
تعلیمی لٹریچر میں خود آموزی کی مختلف اور متنوع تعریفیں پائی جاتی ہیں اور اس تنوع کی وجہ محققین کے رجحانات کی کثرت ہے۔ ان میں سے بعض نے جدید تکنیکی ذرائع سے اس کے تعلق کے نکتہ نظر سے اسے دیکھا ہے، اور بعض نے سیکھنے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کے نکتہ نظر سے، تو کچھ نے اس طرز تعلیم کے طریقوں کو مدنظر رکھ کر اسکی تعریف کی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے اس کی تعریف تعلیمی مواد کی ترتیب کے طور پر کی ہے جو سیکھنے والے کو اس کی ذاتی صلاحیتوں اور خواہشات کے مطابق ترقی حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور اسے مناسب تعلیمی رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور اس کی ذاتی ضروریات کے مطابق اس کی مدد کرتا ہے۔
اور (بعض دفعہ) اس کی تعریف سیکھنے والے کی مشق کرنے کی صلاحیت کے طور پر کی جاتی ہے اور بڑی حد تک آزادی سے اس بات کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے کہ سیکھنے کے لیے کیا کارآمد ہے، اور پھر کیسے یہ سب چیزیں سیکھنے کے عمل سے قریب تر ہونگی۔ اور اس کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ ایک فرد مختلف طبع شدہ اورغیرمطبوعہ ذرائع تعلیم کا استعمال کرکے خود کو تعلیم دے۔
یہ (ذریعہ تربیت) وہ طریقہ ہے جس میں فرد معلومات اور ہنر حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو مختلف تعلیمی حالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے، تاکہ توجہ کا مرکز استاد سے ہٹ کر سیکھنے والے کی طرف منتقل ہو، پس سیکھنے والا ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کب اور کہاں اختتام ہو گا، اور وہ کون سے وسائل اور متبادل اختیار کرے گا، اور پھر وہ اپنے سیکھنے اور اپنی ثقافتی اورعلمی ترقی، اور جو کچھ فیصلے وہ کرتا ہے اس سب کے لیے خود ذمہ دار بن جاتا ہے۔
اس (طرز تربیت) کی تعریف میں یہ بھی آتا ہے کہ سیکھنے والا کلاس روم، اسکول اور یونیورسٹی سے باہر بھی مسلسل معلومات اور ہنر حاصل کرتا رہے، یہ سب کچھ وہ خود پر اعتماد کرتے ہوئے کرے، محض اس لیے نہیں کہ امتحان میں کامیاب ہوجائے اور ڈگری حاصل کرے۔ بلکہ ذاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے، جیسے کسی مخصوص مسئلے کا جواب دینے یا حل نکالنے کے لیے یا کسی کام کی تلاش کے لیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی تعلیم بہت اہمیت کی حامل ہے، خاص طور پر اس عالمگیریت کے دور میں، جس میں انسان نے بڑے پیمانے پر تکنیکی ترقی حاصل کی ہے، اور وہ تبدیلیاں اور ترقیاں جو پے در پے انسانی معاشرے پر مسلط کردی گئی ہیں، اب اگر انسان ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خود کو اپ ٹو ڈیٹ نہیں کرے گا تو یہ کمزوری اس کو پسماندہ معاشروں میں لا کھڑا کرے گی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اس تعلیم کے طریقوں کی بہت زیادہ حمایت کرتے ہیں، کیونکہ یہ افراد کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو اس طرح سے بڑھاتی ہے جس کی عکاسی ملک کی ترقی کرتا ہے، اور یہاں سے اس قسم کی تعلیم کا رول اور اہمیت واضح ہو جاتا ہے:
- یہ (طرز تعلم) فرد کی کارکردگی کو بڑھاتا ہے، مسائل کا مقابلہ کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے، اور ان کا مناسب حل فراہم کرتا ہے۔
- اس سے فرد کو جدید مہارتوں میں مکمل طور پر دسترس حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے، کیونکہ اس نے خود اسے تلاش کیا ہے تاکہ اپنی مرضی سے سیکھے نہ کہ کسی اور نے اس پر مسلط کیا ہے۔
- یہ سیکھنے والے کو اس کی سطح اور مستقبل کے بارے میں درست نتائج فراہم کرتا ہے۔
- یہ سیکھنے والے کے مثبت پہلو کو بڑھاتا ہے اور اسے منفی طریقوں کو مسترد کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
- یہ سیکھنے والے کے تجربے کو بڑھاتا ہے، اسے تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے قابل بناتا ہے، اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے کے قابل بناتا ہے۔
- یہ فرد کو ذمہ داری لینے، دوسروں پر انحصار ترک کرنے، مستقبل اور اس کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
- اس طریقہ تعلم میں فرد ایک مختلف ماحول میں رہتا ہے جس کی خصوصیت میں جمہوریت اور دوسروں کے ساتھ شرکت ہے۔
فرد دوسروں کی مہارت اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کا خواہاں ہوتا ہے۔
خود آموزی کی مہارت حاصل کرنے کے لئے تعلیمی ذرائع
خود آموزی کےعمل میں مہارت حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ کے پاس مہارتوں اور تعلیمی ذرائع کے مجموعہ کی وافر مقدار موجود ہو، جن میں سے کچھ کا تعلق فرد کی ذاتی صلاحیتوں کے تشخیص سے ہے، اور کچھ کا تعلق مجموعہ علم اور سیکھنے والے کی تنقیدی صلاحیت، اس کا تجزیہ، دریافت کرنا، تشریح کرنا، اور تاحیات سیکھنے کے شوق، اور دیگر مہارتوں کے ساتھ مناسبت سے ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
- اہداف کا تعین: یہ اس تعلیم کا پہلا قدم ہے، جو سیکھنے والے کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے درکار معلومات اور مہارتوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتا ہے۔
- ذرائع کی تلاش: اہداف مقرر کرنے کے بعد، مناسب ذرائع کی تلاش ضروری ہے جو معلومات اور مہارت فراہم کرتے ہیں، اور ان ذرائع میں کتابیں، مضامین، تربیتی کورسز، ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز شامل ہیں۔
- وقت کا انتظام: یہ ذاتی تعلیم کا بہت ہی اہم امر ہے، کیونکہ یہ وقت کو منظم کرنے اور وقت پراہداف حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔
- غلطیوں سے سیکھنا: خود سیکھنے کےعمل کے دوران غلطیاں ہونا معمول کی بات ہے، لیکن ان غلطیوں سے سیکھنا اور انہیں دوبارہ نہیں دہرانا ضروری ہے۔
- سوچنے اور سیکھنے میں آزادی: یہ سب سے اہم ذرائع میں سے ایک ہے جو خود سیکھنے میں کامیاب ہونے میں مدد کرتا ہے۔
- دوسروں سے سیکھنے کے لیے کشادگی: بہت سے لوگ ہیں جو سیکھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں، اس لیے ہمیں ان سے سیکھنے کے لیے کھلا ذہن رکھنا چاہیے۔
- صبر: یہ خود سیکھنے کی مہارت کو حاصل کرنے اور پروان چڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو تعلیمی اور ذاتی مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔
- ذاتی تشخیص: وقتاً فوقتاً خود کو تولنا ضروری ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم صحیح راستے پر رہیں۔
- تجسس: یہ سیکھنے کا ایک مضبوط محرک ہے، لہذا ہمیں اپنے اردگرد موجود ہر چیز میں اس پر توجہ دینی چاہیے۔
- تنظیم: یہ خیالات کو منظم کرنے اور وقت کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
چیلنجز اور حل
ان بہت ساری خصوصیات کے باوجود جو سیکھنے والے کو خود آموزی میں ملتی ہیں اور اسے اداروں اورمخصوص نصاب کے التزام سے الگ کرتی ہیں ۔ کچھ چیلنجز اور رکاوٹیں ایسی ہیں،جن کا سامنا ذاتی تعلیم کے اس منفرد سفر میں اسے کرنا پڑتا ہے یہ رکاوٹیں اور ان کا حل درج ذیل ہے:
- ایسا ذہن جس کو وقت کو منظم کرنے کی ٹریننگ نہیں ہے: وقت کا تصور، اس کا نظم و نسق اور اس کی قدر ہمارے عرب معاشروں میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اور اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو خود سیکھنے کے عمل میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ترجیحات کا تعین کرنے سے اور وقت کو موثر طریقے سے ترتیب دینے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
- ذہن کا روایتی طریقہ تعلم سے مانوس ہونا: بچپن سے ہی انسان کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مخصوص اوقات ہیں، اور ایک استاد ہوتا ہے جو اسے براہ راست پڑھاتا ہے، اور سیکھنے کے عمل میں اس کا مقصد اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنی ہوتی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اس نے پڑھائی کی ہے۔ اس مسئلے کا حل خود سیکھنے کے عمل میں داخل ہونے میں مضمر ہے، اور یہ جاننا کہ شروع میں ہر چیز مشکل معلوم ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن اس فکر میں ڈھل جائے گا۔
- ذہن کی آزادانہ تربیت نہ کرنا: سیکھنے کے فیلڈ کا تعین کرنے میں آزادی ایک رکاوٹ ہوسکتی ہے، لیکن اس پر قابو پانے کے لیے ہمیں گہرائی سے سوچنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اس شئی تک رسائی حاصل کرسکیں جو ہمیں عزیز ہے اور ہم اس وقت تک کچھ سیکھنا شروع کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ ہمارے پاس اس کو سیکھنے کی حقیقی وجہ نہ ہو۔
- معلومات کے مناسب ذرائع کی شناخت: آن لائن بہت ساری معلومات دستیاب ہیں، لیکن یہ تمام معلومات درست یا مفید نہیں ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ان معلومات کی چھان پھٹک کریں اور مناسب معلومات کی تحدید کریں۔
- پیش رفت کا اندازہ لگانا: خود آموزی کے عمل میں پیش رفت کا اندازہ لگانا مشکل ہوسکتا ہے، اس کے لیے ہمیں اہداف متعین کرنے چاہیے اور ترقی کی پیمائش کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے چاہیے۔
- دوسروں سے سیکھنا: خود سیکھنے کے عمل کے دوران دوسروں سے سیکھنا مشکل ہو سکتا ہے، جس کے لیے دوسرے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کے پاس آپ جیسی دلچسپیاں ہوں۔
اگر آپ خود آموزی اور اس میں ٹھوس اقدامات کے حصول کے بارے میں سوچ رہے ہیں، تو ضروری ہے کہ آپ اپنے اہداف کو بہت احتیاط سے متعین کریں، تاکہ آپ ان کے حصول کے لیے ایک ایکشن پلان بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی معلومات کے قابل اعتماد ذرائع کی تلاش ضروری ہے، اور اپنی ترقی کا جائزہ لینے کے طریقے طے کریں، تاکہ آپ صحیح راستے پر رہیں اور یہ جان سکیں کہ آیا آپ آگے بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ اور آپ پر واجب ہے کہ ایسے اشخاص تک پہنچنے کے راستے تلاش کریں جن کے پاس یہ دلچسپیاں ہوں، تاکہ ان سے آپ کو مدد اور مہمیز مل سکے۔
ذرائع اور حوالہ جات:
- احمد بلقیس: سیکھنے والوں کے درمیان انفرادی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکھنے کو ڈھالنا، بنیادیں، اصول اور عملی اطلاقات، صفحہ 16۔
- علی بن سالم بن سلیمان الحوسانی: سلطنت عمان میں دسویں جماعت کے لیے عربی زبان کی کتاب کی سرگرمیوں میں خود سیکھنے کی مہارت، ماسٹر کا مقالہ، صفحہ 9۔
- فہیم مصطفیٰ: الیکٹرانک پڑھنے کی مہارتیں، عمومی تعلیم کے مراحل میں سوچنے کے طریقے تیار کرنے کے لیے مستقبل کا وژن، صفحہ 209۔
- عدنان زیتون: خود سیکھنے کی اہلیت اور مہارتیں، صفحہ 29۔
- فہد البلوشی: سلطنت عمان میں بنیادی تعلیم کے دوسرے دور میں سماجی علوم کی نصابی کتب میں خود سیکھنے کی مہارت کی دستیابی کی حد، ماسٹرز تھیسس، صفحہ 191۔
- ریما الجرف: طالب علم خود سیکھنا، ص 10۔
- التعلم الذاتي: مهارة لابد من اكتسابها لمواكبة تطورات العصر.