اسلام کے عظیم مقاصد میں سے ایک اہم مقصد وحدتِ امت کے تصور کو روبہ عمل لانا ہے۔ یعنی وہ امت جو صرف ایک رب پر ایمان رکھنے والی ہے، جسے اللہ تعالیٰ کی ذات کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک کتاب یعنی قرآن مجید اور ایک رسول یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتی ہے، اور دن میں پانچ مرتبہ ایک قبلہ کی طرف رخ کرتی ہے اور وہ ہے کعبہ، اللہ کا گھر۔
اتحاد ان ضروری فرائض میں سے ہے، جنہیں اکثر مسلمانوں نے بھلا دیا ہے۔ دو شہادتوں، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ سے اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہ تو مقاصد دین میں سے ایک بہت ہی بنیادی مقصد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے اپنی اولاد کی تربیت میں اس بات کو ضروری ہدف بنایا جائے کیونکہ مسلمانوں کی موجودہ حالت میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔ امت اس فریضے کی ادائیگی کے تناسب سے ترقی وطاقت حاصل کرتی ہے اور اس فریضے کی ادائیگی میں غفلت برتنے سے امت کے اندر فساد برپا ہوتا ہے، اس کی طاقت وقوت چلی جاتی ہے اور وہ پسماندگی کا شکار ہوجاتی ہے۔
اسلام میں وحدت امت کا تصور
اسلام میں وحدتِ امت کا مفہوم یہ ہے کہ سبھی مسلمان ایک امت ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ دین کا رشتہ جوڑتا ہے۔ وہ خدائے واحد ویکتا پر ایمان رکھتے ہیں اور اس دینی پہلو کی نسبت سے سبھی مسلمان بھائی بھائی ہیں اور سب کے سب اللہ تعالیٰ کے سامنے حقوق وفرائض میں برابر برابر ہیں۔
جہاں تک سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلمان سیاسی لحاظ سے ایک ہو جائیں اور مشترکہ مفاد کو مدنظر رکھ کر آپس میں تعاون کریں۔ اس پہلو کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی جد وجہد میں وحدت پیدا کی جائے اور اسلامی ممالک کے درمیان ربط وضبط قائم کیا جائے، تاکہ مشترکہ چلینجز کا مل کر سامنا کرسکیں۔
اس تصور کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے اجتماعی پہلو، اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں میں اجتماعی سطح پر ربط وتعلق قائم کیا جائے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کی کفالت کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔ جس سے آپسی تعاون، ضرورت مندوں کی امداد کرنے، اور اخوت کی روح پھونکی جاسکے۔
بہت سی آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہؐ وحدت المسلمین کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد یوں ہے: ” اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے اور اس بات کا خیال رکھو کہ تمہاری موت حالت مسلمانی میں آئے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں متفرق نہ ہوجاو” [آل عمران: 102-103]۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے مومنین پر ایک احسان یہ کیا ہے کہ ان کے جذبات واحساسات کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ اور ان کے دلوں کو جوڑ کر قلب واحد میں بدل دیا ہے اور انہیں نصیحت کی کہ اس عظیم نعمت کو یاد رکھیں، اس کی حتی المقدور قدر اور حفاظت کریں۔ اللہ سبحانہ فرماتا ہے: “اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا اور تم بھائی بھائی بن گئے” [آل عمران: 103]۔ پس اگر قرآن کریم میں صرف یہی ایک آیت ہوتی جو وحدتِ اسلامی اور اخوتِ ایمانی کی عظیم ترین نعمت کی تاکید کرتی ہے، تو یہ اللہ کے احکام پر لبیک کہنے والے مومنین کے لیے عمل پر اکسانے اور شوق دلانے کے لیے کافی تھی۔
یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے، اگرچہ کوئی اس کے لیے دنیا کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “اگر تم دنیا کی ساری دولت بھی خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں کو نہیں جوڑ سکتے تھے لیکن یہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا” [انفال: 63]۔
اللہ تعالیٰ اتحاد واخوت کو نقصان پہنچانے والے سارے عوامل کو دور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس نے ایسے تنازعہ سے منع کیا ہے، جس سے مومنین کی ہوا اکھڑ جاتی ہے اور وہ نامراد ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اور آپس میں لڑائی جھگڑا مت کرو کہ تمہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے” [انفال: 46]۔ پس اگر وہ آپس میں لڑیں گے، اختلافات اور علیحدگی کو ہوا دیں گے، تو وہ مغلوب ہوکر ذلیل وخوار ہوں گے اور دشمن ان پر غالب آجائے گا، ان کی ہوا اکھڑ جائے گی، یعنی ان کی قوت ودبدبہ اور جو بھی غلبہ انہیں حاصل تھا وہ بھی ختم ہو جائے گا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خواہشات، نفسانیت اور خود غرضی کی بنیاد پر تفرقہ بازی کرنے، لڑائی جھگڑے اور اختلافات بڑھانے جیسے اعمال کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنہوں نے واضح تعلیمات آنے کے بعد آپس میں اختلاف اور تفرق کیا ان کے لیے دردناک عذاب ہے” [آل عمران: 105]۔
اس وقت امت مسلمہ کے افتراق وزبوں حالی کے حالات کو بدلنا اس بات پر منحصر ہے کہ امت نئے سرے سے اکٹھی ہوکر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے، جس طرح اس بات کو قرآن مجید نے واضح کیا ہے۔ یہ وہ دائمی دعوت ہے جو ہر زمان ومکان میں امت مسلمہ کے لیے یکساں رہی ہے۔ جب تک مسلمان کرہ ارض پر موجود ہیں، انہیں چاہیے کہ قرآن سے جڑ کر قلبِ واحد بنے رہیں بھلے ہی اس کے مظاہر کئی قوالب میں نظر آئیں۔ قرآن امت کو اکٹھا کرتا ہے، اس کے کلمے اور عناصر کو ایک نقطے پر جمع کرتا ہے۔ اس کے لیے مشترکہ مقصد کا تعین کرتا ہے، جو اس کے اندر اتحاد وتعاون اور مضبوطی پیدا کرتا ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: “اور میرے دکھائے ہوئے سیدھے راستے پر چلو اور ان راستوں کی پیروی مت کرو جو تمہیں لے کر اس کے صحیح راستے سے بھٹکا دیں گے تمہیں اس بات کی وصیت کی جاتی ہے تاکہ تم گمراہ ہونے سے بچ جاؤ” [الانعام: 153]۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحدتِ امت اور اس کی اخوت پر وہی توجہ دی ہے، جتنی کہ اللہ کی کتاب نے اس پر توجہ مرکوز کی ہے۔ آپ صلعم نے اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اس کی وحی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، جس کی روایت ابن عمر نے کی ہے، فرمایا ہے کہ عمر رضہ نے جابیا میں ہم سے خطاب کیا اور کہا “اے لوگو!! میں تمہارے اندر حضور صلعم کے قائم مقام کی حیثیت سے بول رہا ہوں۔ تم لوگوں پر جماعت واجب ہے اور تفرقہ بازی سے دور رہو، یقیناً شیطان اکیلے شخص پر وار کرتا ہے، اور اگر دو لوگ اکھٹے ہوں ان سے دور رہتا ہے۔ جو جنت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ جماعت میں شامل رہے” [ترمذی]۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا، جس کی روایت ابوذر غفاریؓ نے کی ہے۔ “جس نے بالشت بھر جماعت سے علیٰحدگی اختیار کی اس نے اسلام کا قلادہ گردن سے اتار دیا ہے” [ مسند احمد]۔ اور ایک روایت جسے ابنِ عمر نے رسول اللہ صلی سے سنا ہے فرماتا ہے “جو شخص اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے تعلق منقطع کیا پھر اسی حالت میں مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے” [مسلم]۔
ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ آپ صلعم نے اپنی امت کو کسی خاص کام کا حکم کیا ہو اور خود اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیاد نہ ڈالی ہو، بلکہ آپؐ اپنی عمل سے، سیرت سے اور میدان عمل میں جدوجہد سے اس پر عملدرآمد کرتے تھے اور جب قرآن مجید نے اتحاد امت اور مومن کو اللہ کی ربوبیت تسلیم کرنے، اسلام کو بحیثیت دین اور محمد صلعم کو بحیثیت نبی ورسول ماننے پر تلقین کی، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کے درمیان مدینہ منورہ میں بالفعل اخوت قائم کی اور اس بھائی چارے کو نسب ورشتہ داری جیسا بھائی چارہ بنا دیا۔ اس بھائی چارے کی وجہ سے ان کے درمیان جو بھی جاہلیت کی کشمکش یا عصبیت تھی، وہ مٹ گئی۔
آپ صلعم نے وہ اصول مقرر کیے جن سے مسلمانوں میں اخوت، آپسی تعاون اور ہمدردی پیدا ہوگئی۔ جیسے ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی نے فرمایا: “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر نہ ظلم کرتا ہے، نہ ذلت میں چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقارت سے دیکھتا ہے۔ ایک شخص کے برا ہونے پر یہ دلیل کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرتا ہے” [مسلم]۔
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے گا، نہ اسے دشمن کے حوالے کرے گا، جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوا ہے اور جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ اس سے روز قیامت کی پریشانی دور کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی کرے گا” [بخاری]۔
اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے جذبات کو مجروح کرنے سے روکتا ہے اور آپسی رنجشوں اور بغض کے داعیات کو ہوا دینے سے منع کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے: “ایک دوسرے کے سودا پر سودا مت کرو اور ایک دوسرے کے پیغام نکاح پر نکاح کا پیغام نہ بھیجو” [ترمذی]۔
ایسے ہی آپ صلعم نے آپسی خونریزی کو حرام قرار دیا، فرمایا کہ “جب دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تلوار نکالیں گے، وہ دونوں جہنمی ہیں۔ پوچھا گیا، اگر ان میں سے ایک قاتل ہے تو مقتول کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اس نے بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا” [بخاری)]۔ اسی طرح جاہلی عصبیت اور آبا واجداد پر فخر سے روکا گیا اور اپنے نسب پر فخر جتانے سے۔ اسلام کے بعد کوئی بھی چیز فخر کے قابل نہیں ہے، سوائے تقویٰ اور نیک عمل۔ آپ صلعم نے فرمایا۔ “لوگوں کو چاہیے کہ اپنے آباء پر فخر کرنا چھوڑ دیں، جو مرچکے ہیں وہ یا تو دوزخ کے انگاروں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں یا وہ اللہ کے ہاں اس چقندر سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو ناک سے گوبر لڑھکتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے جاہلیت کا غرور اور آباء واجداد پر فخر کرنا دور کردیا ہے اب کوئی اس کے سوا کیا ہوگا؟ نیکوکار مومن ہوگا یا بدکار بدبخت شخص ہوگا۔ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے تخلیق کیے گئے ہیں” [ابوہریرہ]۔
صحابہ کرام ان اخلاقیات کے مشتاق تھے، یہ عبداللہ بن عمر ہیں جو فرماتے ہیں کہ “اللہ تعالی میری امت کو یا محمد صلعم کی امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے اور جو اس سے کٹ گیا وہ کٹ کر سیدھا دوزخ میں چلا گیا”۔ اور نعمان بن بشیر نے کہا جب وہ منبر پر کھڑا تھا۔ “جماعت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب ہے” [ مسند احمد]۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ “یقیناً صلہ رحمی منقطع ہوسکتی ہے اور احسان کی ناشکری بھی کی جاتی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ دلوں کو جوڑ دے انہیں پھر کوئی توڑ نہیں سکتا ہے، پھر اس نے تلاوت کی “اگر تم دنیا کی ساری دولت بھی خرچ کرو گے پھر بھی ان کے دلوں کو جوڑ نہیں سکتے [انفال: 63]۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا “رحم مادر الرحمن کا ایک حصہ ہے جو روز قیامت آئے گا اور صاف وشفاف زبان میں بات کرے گا، پھر جس کی طرف وصل کا اشارہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے جڑے گا اور جس کی طرف کٹنے کا اشارہ کرے گا، اللہ اس سے کٹ جائے گا”۔
ہم اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے تصورِ وحدت پر کیسے کریں ؟
اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت ایک امت کے تصور پر کرنا چاہتے ہیں، وہ تصور جو آزمائش کے وقت متحد کرتا ہے، تو اس کے لیے ہمیں ان کی تربیت میں ان سب اصولوں کی رعایت کرنی پڑے گی:
چھوٹے بچوں کے دلوں میں ایمان کو راسخ کرنا: یہ چیز اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلعم کے دکھائے ہوئے صحیح راستے پر مکمل ایمان رکھنے سے پوری ہوگی۔ ان دونوں کے سمجھنے اور حتمی ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں اور رہا سوال یہ کہ جن چیزوں میں مجتہدین کے درمیان اختلاف ہے تو وہ ایسے مسائل ہیں جن کی بنیاد پر تفرقہ بازی اور نزاع نہیں ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر بچوں کی تربیت: یہ وحدت کے اسباب میں سے ایک ہے کیونکہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کے منہج سے انحراف کریں گے، ضروری ہے کہ ان میں اختلاف ہوگا، اس لیے کہ خواہشات ایک جگہ متحد نہیں ہوسکتیں اور خواہشات کے پیروکار آپس میں متفق نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں تنازعہ کھڑا مت کرو” [انفال: 46]۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم آنے کے بعد تنازعہ سے روکا گیا ہے، تاکہ ہمیں اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ تنازعہ، اللہ اور رسول کی اطاعت ترک کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
اہل علم اور سرپرستوں کی اطاعت: ان کی اطاعت کرنےکے لیے شرط یہ ہے کہ وہ خود اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اے ایمان والو! اللہ، اس کے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات پر اختلاف ہو تو اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طرزِ عمل تمہارے لیے خیر کا باعث ہے اور فیصلہ کرنے کے لحاظ سے بہتر ہے” [نساء: 59]۔
تعصب سے کنارہ کشی اختیار کرنا: کیونکہ اس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف بغض رکھنے اور اس کا خون حلال کرنے یا اس کی تکفیر کرنے سے محفوظ رہے گا۔ کیونکہ آج بھی مسلم ممالک ان لوگوں سے خالی نہیں ہیں جو برائی پھیلانے، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے، سازشیں کرنے اور ایک دوسرے کے اوپر چڑھ دوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔
افہام وتفہیم کا دروازہ کھلا رکھنا: آزادی رائے واظہار کے ذریعے، متفقہ موقف تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے، اس کے لیے بس یہ شرط ہے کہ ادب واحترام کو ملحوظِ نظر رکھا جائے۔ حق محض اپنے بیان ودلیل سے سربلند ہوتا ہے۔ یہ لوگوں پر اپنے خیالات تھوپنے اور انہیں خاموش کرانے سے غالب نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کو اظہارِ مافی الضمیر سے روکنے، انہیں اپنی رائے دینے، سوال پوچھنے اور اپنے ذہن کے شک وشبہات کا اظہار کرنے سے منع کرنا، حق کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔
بچوں کے دلوں میں حسنِ ظن اور محبت کا بیج بونا: یہ کہ ہم اختلاف میں ایک دوسرے کا عذر قبول کریں۔ ایک دوسرے کے لیے سینہ کشادہ کرلیں۔ یہ نہ ہو کہ ہم تہمت لگائیں، کینہ پالیں، تعصب میں مبتلا ہوں اور نیتوں میں کھوٹ رکھیں۔ اور ہمیں چاہیے کہ بلا ثبوت کے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہ کریں۔
آیاتِ وحدت کی تعلیم وتشریح: اس کے لیے ان آیات پر غور وفکر کیا جاسکتا ہے جن میں وحدت المسلمین کی تعلیم دی گئی ہے اور ان کی تفسیر پڑھی جائے تاکہ اس کے معانی بچوں کے ذہنوں میں صاف صاف اتر جائیں۔
امت مسلمہ کا اتحاد واتفاق، ربط وضبط، نظم ونسق، داعیات افتراق وانتشار سے اجتناب اور اختلافات ونزاعات سے احتراز مقاصد شرعیہ میں سے ایک بہت ہی اہم مقصد ہے۔ اور یہ فرائض اسلام میں سے ایک فریضہ ہے اور ان ذمہ داریوں میں سے ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر واجب کیا ہے۔ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے وحدت واخوت کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خبردار کیا ہے کہ پچھلی امتوں کی طرح افتراق وانتشار کا شکار نہ ہوں، جب کہ ان پر حجت تمام ہوچکی تھی۔ اس لیے دردناک عذاب کے مستحق ہوگئے۔
مأخذ اور حوالہ جات:
- ڈاکٹر یوسف قرضاوی: منفرد خصوصیات۔
- نیسابوری: المستدرك، صحیحین کے شرائط پر مجموعہ احادیث، ص 3221.
- أبونعيم: اولیاء اللہ کے زیور 3/37۔
- ناصیف نصار: قرآن میں امت کا تصور۔
- خطباء کا فورم: ایک امت کے تصور پر نسلوں کی تربیت۔