امام ابو حامد الغزالی اگرچہ فلسفہ کی دنیا کا ایک بلند پایہ نام ہے، لیکن انہیں علمِ فقہ میں بھی ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی وہ اپنا ایک خاص نکتہ نظر رکھتے تھے۔ اس طور سے کہ تعلیمی و تربیتی پروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کیلئے طلبہ اور اساتذہ کی رہنمائی کیسے کی جائے؟ اس کے لئے کیا رہنما اصول تجویز کئے جائیں؟ تاکہ قوم و ملت کے مستقبل (نوجوانوں) کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ صحیح معنوں میں قوم کی قیادت کے اہل ہو جائیں۔
امام غزالی کی ذہانت و فطانت، نظر کی وسعت، بہترین قوتِ استدلال، ان کی حاضر دماغی اور پھر ان صلاحیتوں کے صحیح استعمال نے انہیں مختلف علوم میں درک حاصل کرنے اور کئی نئی راہوں کو دریافت کرنے میں مدد دی۔ وہ بیک وقت ایک عظیم فلسفی، اعلی پائے کے فقیہ، بلند پایہ صوفی، اصولی اور ایک بہترین مربی تھے۔ انہیں اپنے دور کے تمام علوم پر ید طولیٰ حاصل تھا اور وہ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم، دانشور اور مجدد تھے۔ وہ پورے عرب میں ممتاز ترین شخصیت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں حجۃ الاسلام (اسلام کی دلیل) کا لقب دیا گیا ہے۔
امام ابو حامد الغزالی کی پرورش:
ابو حامد الغزالی 451 ھ مطابق 1058ء میں خراسان، فارس کے قصبے طوس میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے غزّال تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم والد کی وفات کے بعد اپنے والد کے ایک دوست، ایک صوفی پیروکار کے ہاں حاصل کی۔
امام غزالی نے اپنے بچپن ہی سے بڑے بڑے علماء سے علمی استفادہ کیا ہے۔ فقہ کی تعلیم انہوں نے طوس میں ہی امام احمد الرازکانی سے حاصل کی۔ پھر وہ نیشاپور چلے گئے اور نظامیہ میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے ابوالمعالی الجوينی امام الحرمين سے اصول الفقہ اور علم الکلام پڑھا۔ وہ ان سے لگاتار علمی استفادہ کرتے رہے، یہاں تک کہ انہیں فقہ اور اصول الفقہ، اصول الدین، منطق، علم الکلام اور فلسفے میں کمال درجے کی مہارت حاصل ہوئی۔ اسی طرح وہ وسیع پیمانے پر اختلافات اور تنازعات کی بنیادوں سے واقف ہو گئے۔
امام غزالی نیشاپور میں ایک طویل عرصے تک مقیم رہے۔ وہیں شادی کی اور بچے بھی ہوئے۔ وہ یہاں ہی مقیم رہے یہاں تک کہ ان کے استاذ شیخ امام الجوینی کی وفات 478 ھ مطابق 1085ء میں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے نیشاپور کو خیرباد کہا جب کہ ان کی عمر 28 سال تھی۔
جب ابو حامد الغزالی کے علمی کمال اور مخالفین کو علمی مباحثوں میں شکست دینے کا شُہرہ چار دھانگ عالم میں پھیلا، تو سلجوقی وزیر نظام الملک طوسی نے 484 ھ، مطابق 1091ء میں انہیں مدرسہ نظامیہ میں پڑھانے کے لیے بغداد بھیجا۔ چنانچہ جب امام غزالی وہاں پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر 34 برس تھی۔ بغداد میں امام صاحب نے مختلف فلسفیوں، متکلمین، باطنیوں اور صوفیاء سے بحث و مباحثے میں بھرپور حصہ لیا اور اپنے علمی کمالات کا لوہا منوایا۔

بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے امام غزالی کا مؤقف:
امام غزالی کا ماننا ہے کہ تربیت انسان کو ایک ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جو انسان کی فطری صلاحیتوں کو بے ساختہ ترقی دے کر ان کو نشونماء دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خاندان انسان کی تربیت کا پہلا ادارہ ہے۔ اور یہ کہ علم کی طلب پھر اس میں دلچسپی ایک مقداری (quantitative) نوعیت کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک معیاری (qualitative) نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس طرح یہ تعلیم و تربیت سے متعلقہ ان اہم ترین مسائل کو ایڈرس کرتا ہے جو اس وقت دنیا کی بیشتر اقوام کو لاحق ہے۔ یعنی تعلیم و تربیت کے مقداری اور معیاری پہلوؤں کے درمیان توازن قائم کرنا۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کے منفرد افکار کا خلاصہ درج ذیل ہے:
• فارغ اوقات میں بچوں کے اندر پڑھائی کا شوق پیدا کرکے انہیں لا یعنی اور فضول مشغولیات سے دور رکھنا۔
• بچوں کو ان کے دینی امور سے متعلق آگاہی فراہم کرنا، انہیں فرائض و واجبات کی تعلیم دینا اور ضروری عبادات پر عمل کراکر ان کی تربیت کرنا۔
• بچوں کی اخلاقی تربیت اور لاڈ پیار کے درمیان توازن اور اعتدال قائم کرنا۔
• ایسے اوقات ضرور مختص کیے جائیں جس میں بچے صحت افزاء کھیل کود میں حصہ لیں تاکہ وہ بھرپور توانائی کے ساتھ بالکل مستعد ہوکر مفید کاموں (پڑھائی وغیرہ) میں حصہ لیں۔
• امام غزالی شاباشی کو مارپیٹ یا سزا دینے پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بچوں کو سزا دینے کے معاملے میں سختی نہ برتی جائے کیونکہ اس سے وہ پڑھائی سے متنفر ہو جاتے ہیں۔
• وہ تعمیر اور تطہیر کے حوالے سے فطری تقاضوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جبر و زیادتی اور دباؤ پر مبنی اصلاحی طریقے بے سُود ہیں۔ بلکہ اس کیلئے مسلسل مشق، جدوجہد اور طویل صبر کے قائل ہیں۔
• اسی طرح وہ بچوں کے درمیان الگ الگ انفرادی خصوصیات کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔
معلّم کے بارے میں امام غزالی کی رائے:
امام ابو حامد الغزالی کا ماننا ہے کہ استاد کو تعلیمی و تربیتی عمل کے حوالے سے ایک اہم فریق کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے اس کا انتخاب احتیاط سے کیا جانا چاہیے، اور اس میں درج ذیل خصوصیات کا پایا جانا لازمی ہے:
• وہ جو بھی علمی خدمت انجام دے اس پر معاوضے کا خواستگار نہ ہو۔
• وہ اپنے طلبہ کیلئے رول ماڈل ہو، جو انہیں اسی چیز سے روکتا ہو جس میں وہ خود پرہیز کرتا ہو۔
• ایک استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو رحم دلی اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ نرم لہجے میں اچھی نصیحت کرے اور انہیں بھلائی کے راستے پر چلائے۔
• ایک استاد میں یہ صفت ہو کہ وہ اپنے طلبہ کو دوسرے سبق کی طرف تب تک قطعاً نہ لے جائے جب تک نہ پہلے سبق کا فہم ان کو ازبر ہو۔
• وہ طلبہ کے دلوں میں ان علوم سے نفرت پیدا نہ کرے جو وہ انہیں نہ پڑھاتا ہو۔
• وہ اپنے طلبہ کو جو مواد پڑھاتا ہو، اسے مشکل بناکر پیش نہ کرتا ہو۔
• وہ طلبہ کے درمیان صلاحیتوں کے اعتبار سے فرق کو مدنظر رکھنے والا ہو۔
امام غزالی کے نزدیک اخلاقی تعلیم و تربیت:
حجۃ الاسلام ابو حامد الغزالی اس بات کے قائل تھے کہ اخلاقی تعلیم کا مقصد کچھ ایسے اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنا ہے جو فرد اور معاشرے کی روحانی، اخلاقی، فکری، سماجی اور سیاسی سطح کو بلند کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک مقاصد یہ ہیں:
انسانی کمال: انسانی روح کو احساس کے دائرے سے فکر کے دائرے تک بلند کرکے، اور انسان کو خواہشات کی پیروی سے اٹھاکر اللہ کی بندگی کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز کرنا، یہاں تک کہ وہ انسانی کمال کے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ جائے۔ یعنی خالقِ کائنات سے قریب تر ہو۔
فضائل کی بنیاد پر اپنے نفس کی تربیت کرنا: امام غزالی نے فضائل کی اساسیات پر توجہ مرکوز کی، اور انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا ہے: حکمت، شجاعت، عفّت اور عدل۔ وہ کہتے ہیں کہ نیکی کا حصول دل اور روح کو اللہ تعالیٰ کی یاد کے لیے پاک کرکے اور اخلاق کی اصلاح کے لیے کام کرنے سے ہوتا ہے۔ غزالی فضائل کی اہمیت اور انسانی نفس کی جبلتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ان کے رول کو بیان کرتے ہیں اور ان کی فطری نشونما پر زور دیتے ہیں۔
خواہشاتِ نفسِ انسانی کی تہذیب و تطہیر: امام غزالی کہتے ہیں کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسانی نفس کی خواہشات، میلانات اور جبلتوں کو مکمل طور پر دبا کر ختم کر دیا جائے، کیونکہ یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ بلکہ انسانی شہوت ایک فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ کھانے پینے کی ہوس انسانی زندگی کی نشوونما کے لیے ضروری ہے، اور جنسی خواہش انسانی نسل کی بقا کیلئے ضروری ہے۔ لیکن اسلام کا مقصود یہ ہے کہ وہ ان تمام خواہشات کو اعتدال، عفت اور عقلِ سلیم کے ساتھ جوڈ کر انہیں ایک صحیح سمت عطا کرتا ہے۔
امّت کی توانائیوں کا صحیح سمت میں خرچ ہونا: امام غزالی نے روحانی اور جسمانی قویٰ کو محفوظ رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے اور ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح وہ ان رذائل سے بچنے کی دعوت دیتے ہیں جو فرد اور معاشرہ دونوں کیلئے نقصان دہ ہیں۔ اسی طرح وہ ان خصائل پر زور دیتے ہیں جو فرد اور معاشرے پر بہترین اثرات مرتّب کرتے ہیں۔
ایک متوازن شخصیت کی تشکیل: اخلاقی تربیت کے ضمن میں امام غزالی نے انسانی شخصیت کی پاکیزگی کیلئے درج ذیل چیزوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے: عقل، روح اور جسم ۔ وہ انہیں ایک مربوط وجود کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی لئے امام غزالی تربیت کے وہ طریقے تجویز کرتے ہیں جو باہم مربوط اور متوازن انداز میں کام کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے قلب و روح کی تربیت و تزکیے کیلئے جدوجہد اور ریاضت، عقل کی تربیت کیلئے تفکر و تدبر اور جسم کی پرورش اور دماغ اور حواس کو متحرک رکھنے کیلئے کھیل کُود اور ورزش کا سہارا لینا۔
خداتعالیٰ کو راضی کرنا: امام غزالی نےاللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے جدوجہد کرنے پر زور دیا ہے۔ وہ ہمیں اس فانی دنیا کے عزائم سے خبردار کرتے ہیں اور اللہ کی شریعت کا بول بالا کرنے پر ابھارتے ہیں اور ساتھ ساتھ خدائے تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کا خیال ہے کہ اخلاقی تربیت کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس فانی زندگی کے دوران ابدی آخرت کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ اس دنیا میں ایک انسان کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ ایک مطیع اور فرمانبردار بن کر پوری زندگی گزارے۔
امام غزالی کی وفات:
امام ابو حامد الغزالی کی وفات 14 جمادی الثانی 505 ھ بمطابق 19 دسمبر 1111ء کو 55 سال کی عمر میں ہوئی۔ ان کی وفات کے حوالے سے ان کے بھائی احمد الغزالی سے روایت ہے کہ: جب سوموار کی صبح ہوئی تو میرے بھائی ابو حامد نے وضو کیا، نماز پڑھی، اور کہا: میرا کفن لے آؤ، پھر انہوں نے اس کفن کو چوما، اسے آنکھوں سے لگایا اور کہا: ” شہنشاہ کائنات کے دربار میں سمع و طاعت کے ساتھ داخل ہونے کیلئے پر امید ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی دونوں ٹاںگیں دراز کیں، اور قبلہ رُخ ہوئے، اور طلوعِ سحر سے پہلے پہلے ان کی روح پرواز کر گئی”۔
امام غزالی نے بہت بڑا اور وسیع تفسیری، فقہی، اصولی، فلسفیانہ اور تصوف پر مبنی چھوٹی بڑی کتابوں اور رسائل و مقالات کی صورت میں 457 کتابوں پر مشتمل وسیع لٹریچر اپنے پیچھے چھوڑا ہے، جن میں سے بہت سا لٹریچر اب بھی مخطوطات کی شکل میں موجود ہے اور بیشتر کتابیں گُم ہو چکی ہیں۔ اصول الدین اور امور دین کے علاوہ صحیح عقیدے کا دفاع اور معاصر فلسفے کا رد ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ جس کا اندازہ ان کی مندرجہ ذیل تصانیف سے بخوبی ہوتا ہے۔ مثلاً ان کی شاہکار انسائیکلوپیڈیا “احیاء علوم الدین” اور کتابیں جیسے: المنقذ من الضلال، فضائح الباطنية اورتهافت الفلاسفة وغیرہ جیسی شاہکار تصانیف نے انہیں پانچویں صدی ہجری کا مجدد عظیم کا خطاب دلوایا۔
مصادر و مراجع:
محمد إبراهيم الفيومي: الإمام الغزالي وعلاقة اليقين بالعقل.
ابن كثير: البداية والنهاية
كارل بروكلمان: تاريخ الأدب العربي.
الذهبي: سير أعلام النبلاء.
بهي الدين زيان: الغزالي ولمحات عن الحياة الفكرية الإسلامية.
عبد الحفيظ أحمد علاوي البريزات: نظرية التربية الخلقية عند الإمام الغزالي.
صلاح الدين جليل بن أيبك الصفدي: الوافي بالوفيات.
السبكي: طبقات الشافعية الكبرى، 6/90۔
مترجِم: عاشق حسین پیر زادہ